ہالی ووڈ کے مجاہدین اور ہندوستانی ٹماٹر


میڈیا کے طالب علم ہونے کے ناتے سے ہم نے یہ پڑھا تھا‘ کہ پروپگنڈا کیسے کیا جاتا ہے‘ کیسے ذرائع ابلاغ سے متعلق شخصیات کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک کند ذہن طالب علم ہونے کی وجہ سے‘ بہت سی پڑھائی‘ ہمارے سر سے گزر گئی‘ لیکن آج جب ہم میڈیا کی وسیع تر پہنچ کے سبب‘ عالمی و ملکی حالات کے بگڑتے سنورتے واقعات پر نطر ڈالیں‘ تو کند ذہن ہونے کے باوجود‘ ہمیں تمام تر کھیل سمجھ آتا ہے‘ کہ کیسے ناظر کے ذہن کو جکڑا جاتا ہے۔

صرف پاکستان کے پڑوس افغانستان میں برسوں سے جاری جنگ ہی کو دیکھیے۔ کبھی یہی مجاہدین تھے‘ جو گھروں سے جہاد کرنے نکلے تھے‘ تو عالمی میڈیا‘ انھیں مجاہدین لکھتا اور پکارتا تھا۔ ہالی وُڈ میں بننے والی فلمیں بتاتی تھیں‘ کِہ مسلمان (مجاہدین) کتنے اعلا ظرف ہیں اور رحم دل ہیں‘ کہ دُشمن کو اُس وقت بھی معاف کر دیتے ہیں‘ جب وہ بدلہ لینے کی اختیار اور طاقت رکھتے ہوں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے‘ کہ پاپولر سینما‘ جیسا کہ ہالی وُڈ‘ بالی وُڈ میں ریاستی ادارے سرمایہ کاری کرتے آئے ہیں‘ تا کہ ریاستی پالیسی کے حق میں پروپگنڈا کر سکیں۔ دُنیا بھر میں فلم‘ ٹی وی ڈراما پروپگنڈا کے موثر ذرائع مانے جاتے ہیں‘ کیوں کہ ناظر تفریح تفریح میں پروپگنڈا کا شکار ہو جاتا ہے‘ اور اُسے پتا بھی نہیں چلتا کہ اُس کی سوچ کو کیسے سمت دی گئی ہے۔

ان فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے‘ کہ کہیں ’ریمبو‘ (سلویسٹر اسٹالن) اُن مجاہدین کی مدد کو جا پہنچتا ہے‘ اُسے سی آئی اے نے مظلوم مجاہدین کی نصرت کے لیے بھیجا ہے۔ اسی طرح کسی فلم میں یہ دکھایا جاتا ہے‘ کہ روس کا افغانستان پر حملہ کیوں کر جارحیت ہے‘ اور افغانیوں کا روس کے سامنے ڈٹ جانا حب الوطنی۔

کون نہیں جانتا‘ کہ سپر پاور امریکا نے اِن مجاہدین کو بنانے میں کیا کردار ادا کیا‘ اور کس کس ملک نے سرمایہ کاری کی‘ اس کی خبر بھی انھی کی فلمیں‘ انھی کا میڈیا دیتا آیا۔ وقت بدلا؛ ریاستی پالیسایاں بدلیں‘ مفادات بدلے‘ تو حالات بدل گئے۔ مفادات کے اس کھیل میں جب پتے اپنے ہاتھ میں نہیں رہے‘ تو میز ہی اُلٹ دی گئی۔ اُلٹی پڑی میز کے تلے دبے ’مجاہدین‘ پہلے ’طالبان‘ اور پھر ’دہشت گرد‘ کہلائے‘ جن کا ہونا‘ دُنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ لیجیے فلموں‘ ٹی وی سیریز کی کہانیوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی؛ اب ہر جگہ مسلمان دہشت گرد کے رُوپ میں دکھایا گیا۔ مسلمان بنیاد پرست کہلایا۔ غیر لچک دار مسلمان مرد‘ خواتین کو زبردستی برقع پہنا کے‘ نقاب اوڑھا کر‘ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یوں اس بیناد پرست‘ اس دہشت گرد پر بارود پھینکا گیا؛ میڈیا پر اتنی گرد اُڑائی گئی‘ کہ دھول کے پیچھے چھپا سچ کبھی ظاہر نہ ہو۔ یہ سمجھنا مشکل ہے‘ کہ مسلمان کو کس نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے؛ خود اُس نے یا کل عالم نے۔

نائن الیون کے بعد کرسٹینا لیمب ’قندھار‘ بنا کے دکھاتی ہیں‘ کہ افغانی خود غرض‘ تنگ نظر‘ جھوٹے اور بد کردار ہیں۔ کرسٹینا لیمب یہ نہیں بتاتیں‘ کہ معذور‘ بے کس‘ لاچار افغانی آج اس حالت میں ہیں‘ تو وہ اس احوال تک کیسے پہنچے! آج ہالی وُڈ سے کئی فلمیں مثال کے طور پہ پیش کی جا سکتی ہیں‘ جو نائن الیون کے بعد‘ مسلمان (چاہے کسی بھی خطے سے ہو) کو‘ بے کردار ثابت کرتی ہیں۔ کوئی بھی چینل دیکھ لیجیے‘ وہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کا پروپگنڈا کرتا دکھائی دے گا۔ ہم عوام کل بھی اُن کی باتیں بڑے شوق سے سنتے تھے‘ تسلیم کرتے تھے؛ ہم مسلمان آج بھی ان کے پروپگنڈے پر ویسا ہی بھروسا کرتے ہیں۔

الحمد للہ! ہم پاکستانی ہیں؛ پاکستان کی اکثریت آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ نعوذ باللہ جب کوئی کسی مقدس ہستی کی توہین کرتا ہے‘ تضحیکی کلمات کہتا ہے‘ یا ڈاکیومینٹری کے نام پر لغویات نشر کرتا ہے‘ تو ہم اپنے ایمان کا ثبوت اپنے ہی گھر کی دیواریں گرا کے‘ توڑ پھوڑ کر کے‘ جلاو گھیراو کر کے دیتے ہیں۔ پھر ہاتھ جھاڑ کے نعرہ لگاتے ہیں‘ کہ ہم نے اسلام اور پاکستان کو بچا لیا؛ آیندہ کسی کو ہماری طرف میلی نگہ سے دیکھنے کی ہمت نہ ہو گی؛ نہ ہم اجازت دیں گے۔ عرض یہ ہے‘ کہ انھیں پہلے بھی ہماری اجازت کی ضرورت نہ تھی؛ نہ آگے چل کے ہو گی۔

یہ تو وہ طبقہ ہوا‘ جسے عرف عام میں عوام کہتے ہیں؛ وہ طبقہ کیا کر رہا ہے‘ جسے عرف عام میں قائد کہتے ہیں‘ رہ نما کہلاتا ہے؟ اسی طرح ذرائع ابلاغ‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں جہاں پڑھے لکھے افراد کا ہونا یقینی ہے‘ ان کے ذی شعور ہونے پر سوالیہ نشان کیوں نہ لگایا جائے‘ کہ تبصروں‘ تجزیوں میں کیا کیا نہ حماقتیں کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔ نیوز چینل کے ٹاک شو دیکھیں تو لگتا ہے‘ کہ ہم مچھلی منڈی میں داخل ہو گئے ہیں‘ جہاں ہر کوئی چیخ چیخ کے بھاو تاو کی آوازیں لگا رہا ہے۔ کام کی بات کیا ہے‘ پتا ہی نہیں چلنے دیا جاتا۔

اب آ جائیے انٹرٹینمنٹ کے شعبے کی طرف‘ ہمیں شکوہ تو رہتا ہے‘ کہ ٹیلی ویژن ڈرامے کو ’ادب‘ میں شمار نہیں کیا جاتا؛ ہم نے ٹیلی ویژن ڈرامے کو کتنا ’ادب‘ سمجھا ہے‘ اس کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے‘ اس پر بحث نہیں کی جاتی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری تو خیر کب کی اللہ میاں کو پیاری ہوئی؛ اُس کا یہاں کیا ذکر؛ کبھی ہم گجروں پر بننے والی فلموں سے نالاں تھے‘ تو آج ہم ساس بہو کی سازشوں پر بننے والے ٹی وی سیریز کا شکوہ کرتے ہیں۔ ہمارے ادب پہ نظر کیجیے‘ تو خال ہی کوئی نمونہ پیش کیا جا سکے‘ جو ہمارے سیاسی حالات کی حقیقی تصویر کشی کرتا ہو۔ کیا ہمارا میڈیا یہی کچھ دکھاتا رہے گا‘ یا ملکی و عالمی سیاسی حالات کے تناظر میں نیوز اور تفریحی میڈیا کے کرتا دھرتا‘ کوئی موثر جواب دے سکیں گے؟ یا ہمیں ہندستانی ٹماٹروں ہی پر مکالمہ کرنا ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran