جانے کیوں ڈیانا یاد آ گئی


\"saimaحسنین جمال جتنی سرعت سے سوچتے ہیں، اتنے ہی زود نویس بھی ہیں اور جتنا عمدہ سوچتے ہیں، اتنا ہی اچھا لکھتے ہیں۔ ان پہ رشک آتا ہے تومحترمی وجاہت مسعود پہ حیرت ہوتی ہے۔لکھتے بھی ہیں،پڑھتے بھی ہیں،اور لکھنے والوں کو تواتر کے ساتھ چپھنے کا موقع بھی دیئے جاتے ہیں۔ پہلو میں بیٹھے فرد کے حالات سے لے کر دنیا بھر کے معاملات پر ان کی نظر۔معلوم نہیں سوتے کب ہیں، اور کون جانے، سوتے ہوئے بھی بیدار ہی رہتے ہوں۔

31 اگست 1997 کی بات ہے۔ پیرس سے ایک حادثے کی خبر آئی۔ پاپارازی صحافیوں کے کیمروں سے بچنے کی کوشش میں لیڈی ڈیانا کا کار کے حادثے میں انتقال ہو گیا۔ قندیل بلوچ کے بارے میں خبر سنی تو جانے کیوں یہ خبر پھر سے یاد آ گئی۔

ان دونوں ہستیوں میں بظاہر کچھ خاص ربط نہیں بنتا۔ لیکن اگر وہ یاد آئی ہیں تو سوچنا تو پڑے گا کہ کیوں یاد آئیں۔

ایک کا تعلق بر طانیہ کے شاہی خاندان سے تھا اور دوسری پاکستان کے نچلےمتوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی، لیکن خیال آتا ہے کہ اپنے اپنے خاندان کی جانب سے دھتکاری تو دونوں گئی تھیں۔ خاندان کی عزت اور ملک کی شان کو بٹہ لگانے کا الزام تو دونوں کے سر تھا۔ میڈیا میں مقبولیت تو دونوں کی تھی۔ ڈیانا نے الفائیدو کو چومنے سے پہلے جیسن فریزر کو باقاعدہ ٹپ دی تھی۔ البتہ قندیل کی قسمت میں مفتی عبدل قوی کے ساتھ سیلفیاں آئیں۔ شادی ڈیانا کی بھی ناکام ہوئی اور قندیل کی بھی۔ اس کی اولاد بھی اس سے چھین لی گئی اور بیٹے کو واپس پانے کی آرزو قندیل نے بھی کی۔ محبت میں دھوکہ ڈیانا نے بھی کھایا اور قندیل نے بھی۔ پیار کی متلاشی ڈیانا بھی تھی اور قندیل بھی۔ شراب نوشی کا الزام اس پہ بھی تھا اور قندیل پر بھی۔ مختلف مردوں کے ساتھ تعلقات اس کے بھی تھے اور اس کے بھی۔ ماری وہ بھی گئی اور یہ بھی۔ بری وہ بھی بنی اور یہ بھی۔ قندیل نے کسی کا کچھ بگاڑا تھا نہ ڈیانا نے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیانا نے مرنے سے پہلے پاکستانی نژاد ڈاکٹر حسنات کو فون کیا تھا، جس کا جواب  آگے  سے نہ مل سکا۔ کوئی بتا سکے گا کہ قندیل نے آخری فون کس کو کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments