کیا ساری غلطی صرف داعش کی دلہن شمیمہ بیگم کی ہے؟


کچھ سال پہلے جب میں ‌ نے یہ خبریں ‌ پڑھیں ‌ کہ اور تصویریں ‌ دیکھیں ‌ تو مجھے شدید افسوس ہوا تھا کہ یہ چودہ پندرہ سال کی لڑکیاں ‌ برطانیہ اور امریکہ سے فرار ہوکر آئسس میں ‌ شامل ہونے چلی گئی ہیں۔ ساری دنیا مل کر ان پر لعن طعن کرنے میں ‌ مصروف ہے۔ خاص طور پر مغرب میں ‌ موجود مسلمان تنظیمیں ‌ ان کو برا بھلا کہنے میں ‌ اور خود کو ان سے الگ دکھانے میں ‌ پیش پیش ہیں۔ میرا نقطہء نظر ان سے مختلف ہے۔ میرے خیال میں ‌ یہ لڑکیاں ‌ اس نظام کی پیداوار ہیں جو ہمارے اردگرد پھیلا ہوا ہے اور ہم اس کو اس لیے دیکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ منافقت اس طرح‌ ہماری زندگیوں ‌ کا گہرا حصہ ہے کہ وہ ہمارے بلائنڈ اسپاٹ میں ‌ ہے یعنی ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ کون سا پاکستانی بچہ ہے جس نے امریکہ کے لیے موت، اسرائیل کے لیے موت اور ہندوستان کے لیے موت کے نعرے اپنی دیواروں ‌ پر لکھے ہوئے نہیں ‌ دیکھے ہوں؟ ساتھ میں ‌ ہر کوئی یہ بھی چاہتا ہے کہ خود امریکہ منتقل ہوجائے۔

1947 میں ‌ جب انڈیا اور پاکستان الگ ہوئے تو میرے نانا یوپی کی پولیس میں ‌ دیوان جی ہوتے تھے اور انہوں ‌ نے سکھر تبادلہ کروالیا تھا۔ میری نانی تین بچوں ‌ کے ساتھ ایک ٹرین میں ‌ بیٹھ کر پاکستان چلی گئی تھیں ‌۔ آہستہ آہستہ پچھلے ستر سال میں ‌ برصغیر کے عوام کٹر مذہبی بنتے چلے گئے۔ اب نفرت اتنی بڑھ گئی ہے کہ نیوکلیر جنگ تک کا خطرہ ہے۔ ایک کرکٹ میچ کے آن لائن گیم کے نیچے تبصرے پڑھیں ‌ تو ہندوستانی اور پاکستانی نوجوان ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دینے میں ‌ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ یہ ایک ہی لوگ ہیں۔ خطے کے 98 فیصد لوگ جنوب ایشیائی ہیں۔ میرا اپنا ڈی این اے 87 فیصد جنوب ایشیائی ہے۔ لبنیٰ ‌اور مرزا دونوں ‌ نقلی نام ہیں ‌ کیونکہ میرے خون میں ‌ نہ عربی ہے اور نہ ہی فارسی۔ اور اس بات سے میری شناخت اور انسانی حقوق یا دنیا میں ‌ حیثیت پر کچھ فرق نہیں ‌ پڑتا۔ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں ‌ ایک ہزار سال تک برصغیر میں ‌ قران کا لوکل زبانوں ‌ میں ‌ ترجمہ نہیں ‌ ہوا تھا اس لیے یہاں ‌ جن لوگوں ‌ نے اسلام قبول کیا ان کو کچھ زیادہ اندازہ نہیں ‌ تھا کہ انہوں ‌ نے کیا قبول کیا ہے۔ اب بھی مذہب کی روشن خیال تشریح‌ موجود نہیں ‌ ہے بلکہ یہ عوام کو قابو میں ‌ رکھنے کا ایک آلہ ہے۔ آج بھی ہماری قوم سیدھی سادی ہے جس کو سیاست دان اپنے مطلب کے لیے مشتعل کرتے رہتے ہیں۔ میں ‌ دیکھتی ہوں ‌ کہ عمر میں ‌ زیادہ ہونے کے باوجود کافی لوگوں ‌ کا ذہن بچوں ‌ جیسا ہے۔

وہ جادوئی باتوں ‌ پر یقین رکھتے ہیں جس کا ان کی زبان اور باتوں ‌ سے اندازہ ہوتا ہے۔ ایک جملے کے دو حصے ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں۔ بغیر نام لیے ایک صاحب کے بارے میں ‌ بتا سکتی ہوں ‌ کہ وہ اتنے سادہ تھے کہ انہوں ‌ نے کہا کہ ہندوستان اسرائیل کا دوست ہے کیونکہ وہ دونوں ‌ ہمارے دشمن ہیں۔ انہوں نے فلم نو دو گیارہ بنائی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں ‌ کے خلاف ستمبر گیارہ کی سازش میں ‌ مصروف تھے۔

لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے انکل؟ نو دو گیارہ 1957 میں ‌ ریلیز ہوئی تھی اور ٹوئن ٹاور 1972 میں ‌ بنے تھے۔ میں ‌ نے ان سے پوچھ لیا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں ‌ آتی ہے کہ ہندوستانی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی عوام کو دھوکا دینا کتنا آسان کام ہے۔

بہت سارے انڈین، بنگلہ دیشی اور پاکستانی امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں ‌ میں ‌ رہتے ہیں۔ میرے پاس پڑھائی کرنے اور بچے پالنے کے بعد دوستیاں کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا تھا۔ جب میں ‌ نے لوکل پاکستانی خواتین کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو مجھے اندازہ ہوا کہ صرف ایک ملک میں ‌ آپ کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے اس ملک کے لوگوں ‌ سے دوستی ہوجانا ضروری نہیں ‌ ہے۔ کچھ پاکستانیوں ‌ سے دوستی ہوسکتی ہے اور کچھ سے نہیں۔

کچھ ایسے لوگوں ‌ سے آپ ذہنی طور پر قریب ہوتے ہیں جو تمام زندگی بالکل الگ طرح‌ بڑے ہوئے ہوں۔ جیسا کہ میں ‌ اور ماریا۔ اس کا پس منظر کولمبین کیتھولک ہے لیکن ہم ایک دوسرے کی بات فوراً سمجھ جاتے ہیں اور کافی سالوں ‌ سے دوستی ہے۔ میرے نئے پاکستانی دوستوں ‌ کے گھروں ‌ میں ‌ مقامی ٹی وی یا خبروں ‌ کے بجائے پاکستانی خبریں ‌ اور ٹی وی ڈرامے چل رہے تھے۔ میرے ذہن میں ‌ یہ خیال گزرا کہ اگر باہر اوکلاہوما کا خوفناک بگولہ آجائے اور ہم ٹی وی پر چینی چیری بلاسم دیکھ رہے ہوں ‌ تو یہ کافی خطرے کی بات ہے۔ میں ‌ نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی چین سے امریکہ آکر چائنا ٹاؤن میں ‌ بس جائے تو کیا اس نے واقعی چین چھوڑا ہے؟

میری نئی پاکستانی دوست کے گھر میں ‌ زنانہ اور مردانہ الگ تھا جہاں سب ساتھ میں ‌ نہیں ‌ بیٹھتے تھے حالانکہ کام پر سب ساتھ میں ‌ کام کرتے ہیں۔ ان خواتین کا خیال تھا کہ مسلمان اور پاکستانی کوئی غیر قانونی یا مجرمانہ کام نہیں ‌ کرسکتے اور ان پر تخریب کاری کے تمام الزامات مغربی میڈیا کی سازش ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں ‌ بم دھماکے ہندوستان سے ہندو آکر کر جاتے ہیں۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ بمبار کے ختنے نہیں ‌ ہوئے تھے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ حالانکہ ہر مذہب میں ‌ بہت لوگ ہوتے ہیں جو ختنے نہیں کرواتے۔

ان گروپس میں ‌ روایتی جینڈر رولز ہیں ‌ جہاں ‌ خواتین بریانی بناتی ہیں اور آدمی ڈرائنگ روم میں ‌ بیٹھ کر اسلام اور سیاست پر مباحثے کرتے ہیں۔ ان کے بچوں ‌ کو اسلامی اسکولوں ‌ میں ‌ بھیجا جاتا ہے جہاں ‌ مولوی ان میں ‌ اپنی تنگ نظر سوچ منتقل کرتے ہیں۔ ان بچوں ‌ کو دیگر امریکی بچوں ‌ سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے اور خاص طور پر لڑکیوں ‌ کو کھیلنے کودنے یا سؤئمنگ وغیرہ کرنے کی آزادی حاصل نہیں ‌ ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ اپنے بچوں ‌ کو پبلک اسکول میں ‌ پڑھاؤں ‌ جہاں ‌ وہ ہر طرح‌ کے امریکیوں کے ساتھ بڑے ہوں ‌ تاکہ اس معاشرے کا ایک مفید حصہ بن سکیں۔ میں ‌ چاہتی تھی کہ وہ ہر مذہب کے لوگوں ‌ سے دوستی کریں ‌ تاکہ بڑے ہوکر ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں نہ دیں۔

ایک مرتبہ ہمیں ‌ کسی نے پاکستان ڈے پر بلایا جہاں ‌ ہم اپنے بچے لے کر گئے تھے۔ اس پروگرام کی ابتدا ایک وی اے کے کارڈیالوجسٹ نے کی۔ انہوں ‌ نے وسیع موضوعات کے حامل قرآن میں ‌ سے چن کر ایک آیت کی تلاوت کی جس کا مفہوم ان الفاظ میں بتایا کہ‌ لکھا ہوا ہے کہ عیسائی جھوٹ بکتے ہیں ‌ کہ عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں۔ انہوں ‌ نے پہلے عربی میں ‌ بتایا پھر انگلش میں ‌ اور پھر اردو میں۔ یعنی پکا یقین کرلیا کہ سارے حاضرین یہ بات سن لیں۔ انہوں ‌ نے یہ نہیں ‌ سوچا کہ اوکلاہوما کے بیچ میں ‌ ایک صاف ستھری بلڈنگ میں ‌ آپ کو ایک بیرونی ملک کا جھنڈا لہرانے کی اور اس کے گیت گانے کی اجازت اور آزادی ملی ہوئی ہے۔

امریکہ کی 90 فیصد آبادی عیسائی ہے۔ آپ نے اپنے پڑوسیوں ‌ اور اپنے نئے ملک اور ریاست کا اس طرح‌ شکریہ ادا کیا کہ اپنے بچوں ‌ کے سامنے ان کو جھوٹا بولیں؟ حالانکہ بہت سارے عیسائی فرقے عیسیٰ‌ کو خدا کا بیٹا نہیں ‌ کہتے ہیں۔ دوسرے کے عقیدے سے اختلاف ضرور کریں لیکن اس طرح ان کے ملک میں بیٹھ کر انہیں جھوٹا کہنے سے تو احتراز کرنا چاہیے۔

یونیٹیرین مسیحی تو کسی بھی معجزے وغیرہ پر یقین نہیں ‌ کرتے۔ ان کے لیے یہ پرانے زمانے کے لوگوں کی سمجھ سے بڑھ کر کچھ نہیں ‌ ہیں۔ آپ دوسرے لوگوں ‌ سے ملیں گے اور ان کی بات سنیں ‌ گے تو ہی کچھ سمجھ میں ‌ آئے گا۔ ہر کسی کا الگ الگ عقیدہ ہے۔ عقیدہ ایک لیبارٹری کا ٹیسٹ نہیں ‌ ہے جن کو صحیح‌ یا غلط ثابت کیا جاسکے۔ کوئی بھی ایک عقیدہ دوسرے عقیدے سے زیادہ اہم یا خاص نہیں ‌ ہے۔ وہ ذاتی فلسفے ‌ ہیں۔ قران تو کافی بڑا ہے۔ کچھ اور بھی چن سکتے تھے جس سے مذاہب میں ‌ اتحاد اور ایک دوسرے کی عزت ڈھونڈی جائے۔

مسجد میں ‌ ایک مولانا یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ عیسائی اور یہودی بھٹکے ہوئے ہیں۔ مسجدوں ‌ میں ‌ یہ بات بار بار بتائی جاتی ہے کہ کس طرح‌ دنیا میں ‌ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔ حالانکہ تمام انسانیت پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے چاہے مسلمان مظلوم ہوں ‌ یا ظالم۔ ہمارے کلاس فیلو، ساتھ میں ‌ کام کرنے والے ڈاکٹرز، ہمارے مریض ہر مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس متعصب سوچ کو اپنی اولاد میں ‌ منتقل کرنے سے دنیا کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟

کافی سارے پاکستانی امریکی الیکشن کو نہ ہی سیکھتے ہیں اور نہ ہی اس میں ‌ ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان کی نظر میں ‌ سارے امیدوار مشکوک ہیں کیونکہ وہ دوسرے لوگ ہیں۔ وہ دنیا کے لوگوں ‌ کو ہم اور وہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس طرح‌ کی سوچ بچوں کو کنفیوز کرتی ہے جن کا کچا ذہن یہ فیصلہ نہیں ‌ کرپاتا کہ وہ امریکی ہونے کی حیثیت سے امریکہ سے محبت کریں ‌ یا مسلمان ہونے کی حیثیت سے امریکہ سے نفرت کریں۔ اگر ان کو عالمی انسانی حقوق کی تعلیم دی جائے تو شاید یہ مسئلہ حل کرنے میں ‌ مدد ملے۔ اپنے ملک سے وفاداری اہم ہے اور ساتھ میں ‌ اس پر تنقید کرنا اور اس کو سیاسی طریقے سے اندر سے بہتر بنانے پر کام کرنا ضروری ہے۔

داعش کی جنگ میں شرکت کے لئے اپنا ملک چھوڑ کر شام جانے والی ان خواتین کی شہریت ختم کردینے کا فیصلہ غلط ہے۔ اس وقت مغربی حکومتیں ‌ جو فیصلے کررہی ہیں وہ عوامی ردعمل کے نتیجے میں ‌ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حالات ٹھنڈے ہوں ‌ تو ان خواتین کو واپس لانے پر کام ہوگا۔ یہ ان کا حق ہے کہ ان کو اپنے دفاع کا موقع ملے۔

ایک اور نقطہ یہاں ‌ پر اٹھانا بہت ضروری ہے۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ جیسی تنظیمیں ‌ جنسی تعلیم کے سخت خلاف ہیں۔ وہ جمع ہوکر کانفرنس کرتے ہیں ‌ کہ کس طرح‌ ہم ان بھٹکے ہوئے بداخلاق اور جنسی گمراہی کے شکار مغربی ممالک سے اپنے بچوں ‌ کو بچائیں؟ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان ٹین ایجر بچوں ‌ کی جنسی طاقت کو پرتشدد عناصر نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ لڑکے بمبار بن کر خود کو پھاڑ لیتے ہیں ‌ تاکہ مرتے ہی ان کو 70 حوریں ‌ مل جائیں۔

کم از کم ان نوجوان خواتین کو اتنا موقع ملنا چاہیے کہ وہ زندگی کے بڑے بڑے فیصلے کرنے سے پہلے کچھ تقابلہ کرسکیں۔ جب میں ‌ اسٹوڈنٹ تھی تو ایک مرتبہ جہاز میں ‌ سفر کیا۔ میرے ساتھ ایک بہت خوبصورت نوجوان لڑکا بھی سفر کررہا تھا جس کو دیکھ کر میں ‌ تھوڑی متاثر ہوگئی۔ جب ہم ائر پورٹ پر اترے تو امیگریشن کی لائن میں کھڑے تھے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ الی نوئس کیسے لکھتے ہیں؟ میں ‌ نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور اسپیلنگ کی، آئی ایل ایل آئی این او آئی ایس، الی نوئے! اب وہ مجھے زیادہ ہاٹ نہیں ‌ لگ رہا تھا۔

ایسا ہی معاملہ داعش کی ان جہادی دلہنوں کا ہے۔ پدرانہ معاشرے میں ‌ لڑکیوں ‌ کو کسی سے بات کرنے تک کی اجازت نہیں اس لیے ان کو یہی سمجھ میں ‌ آیا کہ ان کالے کپڑوں ‌ والے نوجوانوں ‌ کے ساتھ فرار ہوجائیں جو بندوق اٹھا کر بہت گلیمرس لگ رہے ہیں۔ اپنی صفائی پیش کرنے اور اپنے فیصلوں ‌ کی وجوہات بیان کرنے پران لڑکیوں ‌ پر شدید تنقید ہورہی ہے حالانکہ وہ اپنے والدین کے الفاظ دہرا رہی ہیں۔ روزانہ ان کو یہی باتیں ‌ بتائی جاتی ہیں کہ امریکہ اور یورپ مسلمانوں ‌ کے دشمن ہیں اور مجاہد عظیم انسان ہیں۔ جب وہ بچیاں بڑی ہوکر شمیمہ بیگم بن گئیں ‌ تو یہی سارے ان پر پتھر برسا رہے ہیں۔ وہ اپنی تعلیمات کے انکاری بن گئے۔ میری نظر میں ‌ ان والدین اور مساجد نے صلیبیں ‌ کھڑی کی ہیں جن پر وہ خود اپنے بچوں ‌ کو مصلوب کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).