کارل مارکس سچا تھا


مارکس نے سچ کہا تھا کہ ریاست کسی نہ کسی طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اسی طبقے کے اغراض و مقاصداور مفادات کو مدِنظر رکھ کر اقدامات کئے جاتے ہیں۔ تاہم، مارکس کے نظریے سے متاثر یو ایس ایس آر کے قیام کے بعد سے شُدھ سرمایہ دارممالک نے بھی ریاستی جانبداری کو اصلاحی پردے میں چھپا دیا تھا۔ یہ بھی زوال آمادہ مغرب کی تباہی کا ایک اور مظہر ہے۔ لیکن ابھی مشرق زندہ ہے۔ جہاں تمام تر معاشرتی حقائق و مسائل کو اپنی اصل یعنی خالص حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی بھارت اور پاکستان کی صورت میں ایک خالص، قدیم معاشرہ  قائم ہے۔ جہاں چھوٹوں بڑوں اور ملیچھ برہمن کا فرق ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ہر فرد اپنا مقام جانتا اور پہچانتا ہے۔ جو نہیں مانتا، اُسے منوا دیا جاتا ہے۔

اپنا ملک ہی دیکھ لیں۔ جرنیلی حکومت ہو یا سیاسی، ایک امر پر دونوں کا اتفاق ہے، عوام کیڑے مکوڑوں کی ایک قسم ہیں، ترقی یافتہ یا ارتقائی رجعت کی مثال، یہ تحقیق طلب ہے۔ لیکن کیڑوں مکوڑوں پر تحقیق و تفتیش، یہ مشرقی خصوصاً جنوبی ایشیائی پرم پرا کے خلاف ہے۔ بھارت میں اس خالص تہذیب پر جو کانا پردہ کانگرس نے ڈال رکھا تھا، مودی سرکار نے اسے چاک کر دیا ہے۔ اب برہمن، شودر اور ملیچھ، ہر ایک کو اپنی اوقات واضح طورپر بتا اور جتا دی گئی ہے۔

پاکستان میں بھی ہم نے ان درخشاں روایات کو برقرار رکھا ہے۔ فیلڈ مارشل کے زمانے میں تو کسی قسم کے پردے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب نے البتہ کام کچھ خراب کیا تھا۔ اُس کا اتنا بُرا اثر ہوا کہ عوام الناس اپنے آپ کو ریاست و معاشرے میں شامل سمجھنے لگے تھے۔ بھٹو صاحب کا یہ گناہ اسٹیبلشمنٹ نے آج تک معاف نہیں کیا۔ حالانکہ یہ اعلانات محض زبان و بیان کی حد تک تھے۔ اپنی جاگیر دارانہ فطرت کے عین مطابق بھٹو صاحب نچلے طبقات اور عام آدمی کو کیا سمجھتے تھے، موصوف کا دورِ حکومت اس کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔

جنرل ضیا ایک بہترین جانشین ثابت ہوئے، اپنے پیشرو کی ہر خرابی کو مزید بڑھاتے ہوئے اور اسلام کے نام پر نئی نئی پابندیاں عائد کرکے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کرنے میں موصوف نے بڑا نام کمایا۔ جو رہتی دنیا تک انہیں بدنام رکھے گا۔

جناب نواز شریف کے بڑے منصوبوں سے ہر پاکستانی کی طرح عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچا۔ لیکن خود سابق وزیرِ اعظم کے ذہن میں بھی عام آدمی تھا؟ غالباً نہیں۔ البتہ نواز شریف اور بےنظیر دور میں قومی خزانے میں موجود رقوم کو جیسے پر لگ گئے۔ اُس زمانے میں بھی اور جنرل مُشرف کے دور میں بھی، اگر کسی صاحب ِ اختیار سے عوامی بہبود کی بات ذرا وقت لے جائے تو وہ نہایت مہذب انداز میں فرما دیتے تھے کہ چھوڑو یار کوئی اپنی بات کرو۔

خیال رہے کہ ہم ایک ایسی ریاست کی بات کر رہے ہیں، جہاں ہر دور میں، سیاسی بُنیادوں پر مہنگی گندم خریدی  جاتی ہے۔ یہ گندم سرکاری گوداموں میں گل سڑ جاتی ہے۔ اسی طرح، چینی کے کارخانوں کے مالکان، بڑے بڑے ذخائر پر بیٹھے ہیں۔ لیکن چینی کا نرخ مقامی طور پر کم نہیں کیا جاتا۔ ان ہر دو بُنیادی اجناس کی پاکستانیوں کو زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن سرکاری زرِ اعانت کے ساتھ  ان کو برآمد کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام تک سہولت پہنچانے کا تصور ہے ہی نہیں۔

اس تاریک پس منظر کے ہوتے ہوئے بھی اگر موجودہ حکومت اور ریاستی اداروں کی تعریف کرنا پڑے تو اُن میں کچھ تو بات ہو گی۔ موجودہ وزیرِ اعظم کا اتنا بلند مقام ہے کہ ہما شما سوچ بھی نہیں سکتے۔ جی نہیں، تصوف میں نہیں، عام آدمی کی زندگی اور مسائل کے حوالے سے۔  انڈے، مرغی اور کٹے کا بیان اس حقیقت کو مزید تقویت فراہم کرتا ہے۔ یہ تو بہرحال عمران خان کا مثبت پہلو ہے کہ اتنے بلند عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی عوام کی تفریح کا خیال رکھتے ہیں۔ ورنہ وزیرِ اعظم کے فرائض ِ منصبی میں یہ ہرگز شامل نہیں۔

اُدھر پنجاب حکومت نے بھی ایک ٹھوس کام کیا ہے۔ بڑی گاڑیوں پر گزشتہ حکومت نے محض پیسے کے لالچ میں ایک خطیر رقم ٹیکس کی صورت میں عائد کر رکھی تھی۔ کیا پاکستان میں خدا نے امیر آدمی کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات، یعنی بڑی بڑی گاڑیوں پر ٹیکس ادا کرتا پھرے؟اس گھور پاپ کا اپائے کر کے پنجاب حکومت نے دین، دنیا میں اپنا آپ سرخرو کر لیا ہے۔ تاہم اس حکومت کے طبقاتی کردار کو جلا بخش رہی ہے، ریاستی خصوصاًعدالتی مداخلت۔

نجی سکولوں، ہسپتالوں اور تجاوزات کے بارے میں عدالتی فیصلے اس طبقاتی درجہ بندی کو مزید واضح کر رہی ہے۔ ہسپتالوں اور نجی سکولوں کو ایک خاص حد تک وصولی پر مجبور کرنا !آخر یہ مسلہ ہے کس کا؟ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لوگوں کا۔ تعلیم میں خصوصاً ماں باپ کا۔ حالانکہ اس ضمن میں عدلیہ صرف ایک کام کر سکتی ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار بُلند کرنے کا حکم اور اس پر عملدرآمد کی پڑتال۔

تجاوزات کے نام پر جس طرح پورے پاکستان میں نچلے اور نچلے درمیانے طبقے کی رہائش اور روٹی روزی کا گلا گھونٹا  گیا ہے، جدید دور میں ایسی سوچ اور عمل محض مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتوں میں ہی ممکن ہوا کرتا تھا۔ اُس سے بھی زیادہ دُکھ اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غریب مار مہم میں بالادست طبقوں کے ساتھ ہیں۔ طبقاتی جانبداری کے مزید مظہر ہیں  بحریہ ٹاون کراچی سیکنڈل، بنی گالا کی ناجائز زمین و تعمیرات اور گرینڈ حیات ہوٹل اسلام آبادکے فیصلے۔ جن میں کہا یہ گیا ہے کہ جن لوگوں نے چار چار کروڑ کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اُن کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن مگر مچھوں نے یہ سرمایہ لگایا ہوا ہے، اُن کے لیے اتنی رقم ریز گاری سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اور جو کیڑے مکوڑے عدالتی احکامات کی بنا پر بے گھر ہو گئے ہیں یہ ان کا کل اثاثہ تھا خواہ اس کی بازار میں مالیت چند لاکھ ہی کیوں نہ ہو۔

ایسے لوگ بڑی محنت سے بیروزگار بھی کئے گئے ہیں۔ اب خود کشی کرنا یا نہ کرنا، یہ ان بے چھت، بے مایہ لوگوں کا ذاتی فیصلہ ہے۔ ورنہ ریاست کی جانب سے کھلا پیغام ہے کہ اس کی نظروں میں ایک عام آدمی کی کیا حیثیت ہے۔ بغیر لگی لپٹی رکھے ریاست کا واضح عوام دشمن  طبقاتی کردار متعارف کروانے پر موجودہ ریاستی سیٹ اپ کا شکریہ۔ شکریہ کہ آپ نے کارل مارکس کی سچائی کو واشگاف کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).