بانو قدسیہ نے راجہ گدھ کیوں لکھی؟


بانو قدسیہ انتہائی حساس، نرم طبیعت اور کم گو ادیبہ، ڈرامہ رائیٹر اور مصنفہ تھیں۔ میں بانو قدسیہ کے ساتھ”تھیں” لگانا نہیں چاہتی کیونکہ فن کبھی مرتا نہیں جب تک انسان ہے، حواس ہیں، جسم اور روح کا رشتہ باقی ہے، فن بھی باقی رہے گا۔ البتہ انسان فانی ہے۔ جب وہ ایک دنیا سے انتقال کر کے دوسری دنیا کا سفر طے کرتا ہے تو جسمانی طور پر دور ہو جاتا ہے لیکن اسکی اصل روح الفاظ، تجربات اور احساسات میں لپٹ کر خیالات کی دنیا میں رقص کرتی رہتی ہے جیسے زندگی موت، اور موت زندگی کے ساتھ ساتھ ہم جولیاں ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔

یہاں موت سے مراد حلال اور حرام کی تمیز کھو دینا ہے اور زندگی سے مراد خواہشات کی دوڑ ہے، ایسے ہی “راجہ گدھ” کی کہانی ہے جو ایک طرف زندگی / چاہت ہے۔ درمیان میں انسان کھڑا اس کا رقص کرتا نظر آتا اور آخر/ انجام (نفس/ضمیر کی جنگ اور پاگل پن کی شروعات) میں موت (نفسانی خواہش کا گھوڑا) اس کو کشش ثقل کی مانند اپنی طرف کھینچے چلے جا رہا ہے، کبھی خودکشی کو پروان چڑھا کر، کبھی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کرکے اور کبھی بے حسی کا لباس پہنا کر ان تمام عقل وشعور کے پیمانوں کو آگ میں جلا ڈالتی ہے جو انسانیت کی بقاء اور سلامتی کی ضامن ہوں اور بندے اور بندگی کے مقصد سے کہیں دور لے جاتی ہے، جہاں کوئی راستہ اپنا نہیں ہوتا، کوئی راہ روشن نظر نہیں آتی، بس آب ہی آب ہے، اور ڈوبنا مقدر۔

ہم نے دیکھتے ہیں کہ گدھ میں بے حسی اور بھوک کے ساتھ مردار کو کھانے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ بھوک مٹانا چاہتا ہے ہر صورت، زندہ کی موت کا انتظار اور مرے ہوئے کو چیر پھاڑ کر، اس کی محبت اس کا پیٹ ہے اور وہ اس محبت کے حصول میں پاگل پاگل پھرتا ہے کیونکہ یہ سب اس نے انسانوں سے سیکھا ہے،کیسے نشانا لگانا ہے، کیسے بوٹی ہڈی سے جدا کرنی ہے، زندہ ہو تو بھی غم نہیں، مرتا ہو تو موجیں ہی موجیں، جسم گوشت سب اپنا، پیٹ اور دل دونوں کو سکون ہی سکون۔

جس طرح گدھ جاتی کو گوشت مطلوب ہے اسی طرح انسان کو محبت مطلوب ہے، وہ محبت جس کا ایک سرا محبوبہ ہے، دوسرا دولت اور تیسرا اس کے بنائے ہوئے معاشرت کے اصول ہیں (چاہے حرام ہوں یا حلال) یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں زندگی سے جڑی معاشرت، اس کے اصول، انسانی فطرت، جبلت، ترجیحات اور لالچ کے وہ قفل کھولے گئے ہیں جن میں انسان سے حیوان “گدھ” کی خصوصیات اور اس کے وجود و بقا کی جنگ میں پاگل پن کے عروج کے اسباب بتائے گئے ہیں جو محبت کے نام پر (ضمیر کی تسکین) کے لئےحلال اور حرام میں تمیز کھو دینے اور حاصل سے لاحاصل کی دوڑ میں انسان کے ان رویوں کی عکاس ہے جو، خودکشی، زنا، مال و دولت کی ہوس اور ہوشیاری/ چال بازی میں انسان کے ضمیر کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس کے جسم کا گوشت پوست حرام مال سے پرورش پایا ہوتا ہے اور وہ ظلم وجبر اور حرام خوری، لوگوں کے انفرادی اور معاشی استحصال اور طاقت کے عہدے کے ناجائز استعمال کا ناصرف باعث بنتی ہے بلکہ انسان کو انسان سے راجہ گدھ بنا دیتی ہے۔

 “ناول کے اہم نکات”

انسان اور پاگل پن (حاصل سے لاحاصل محبت/خواہش)

انسان اور محبت (آفتاب اور سیمی)

محبت اور ضرورت (آفتاب اور زیبا) (قیوم اور سیمی) (عابدہ اور قیوم) (امتل اور قیوم)

ضرورت اور زندگی (مختار اور صولت) (روشن اور افتخار)

حاصل مطالعہ:

انسان کی سریشت میں عبد اور معبود کا ایک قفل ہے جسے پروردگار عالم نے خواہش (نفس انسانی)کے تابع رکھا ہے ، نفوس دو طرح کے ہیں (اچھے/برے) جو کہ دل اور دماغ میں بیک وقت خیالات اور احساسات کو پیدا کرنے پر مامور ہیں اور معلوم سے نامعلوم کی منزل طے کرنا چاہتے ہیں جیسے محبت جو خود ایک نامعلوم شے اور کیا راستہ؟ کیا خواہش رکھتی ہے یہ نفس نفس پر منحصر ہے، کسی کو محبوبہ درکار ہوتی ہے، کسی کو مال ومتاع اور کسی کو طاقت۔ کچھ کو سب کچھ درکار ہوتا ہے، کچھ کے پاس کچھ کچھ موجود ہوتا ہے اور کوئی بہت کچھ اور پانے کی خواہش رکھتا ہے۔

محبت کا پیمانہ کبھی طے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ روح اللہ کا امر ہے اور پروردگار کی کوئی حد مقرر نہیں کہ وہ کہاں تک ہے اور کہاں تک نہیں۔ پروردگار عالم نے خواہش کو اپنے تابع کیا ہے اور انسان پروردگار کو چھوڑ کر خود کو خواہش کے تابع کرنا چاہتا ہے ، کیونکہ نفس اچھے اور برے دونوں بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں اس لیے جو حلال کماتے ہیں وہ اچھے نفس کی پرورش کرتے ہیں اور جو حرام کماتے ہیں وہ برائی کو “بہو بنا کر” پورا نفس انسانی اس کے حوالے کردیتے ہیں جو انسان کو پاگل پن سے ہمکنار کردیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).