جنگ کے جنون سے بیزار ہیں ہم


سوشل میڈیا دیکھ لیجیے یا پھر ٹی وی کا بٹن ان کرلیجیے۔ اس وقت جو سودا سب سے مہنگا بک رہا ہے وہ جنگی جنون کا ہے۔ کیا اس جنگی جنون میں دو ایٹمی طاقتوں کے عوام کو جان بوجھ کر مبتلا کیا جارہا ہے؟ یہ سوال غور طلب ضرور ہے۔ دونوں طرف کے عوام جو ایک طویل سرحد کے ساتھ جڑے ہیں۔ یہ طویل سرحد صرف جغرافیے کی نہیں ثقافت کلچر، نفسیات، رسومات، زبان و چٹخارے کے ذائقے کے اشتراک سے لے کر کون کون سی سانجھ ہے جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مشترک نہیں۔ رنگ ایک ہم بہت سوں کے، اب و جد ایک، سرحد پار علاقوں میں اکثر آدھا خاندان ادھر آدھا ادھر، خونی رشتے ہیں جو تقسیم ہوے پڑے ہیں، کیا ان تمام اشتراکات کے بعد یہ جنگی جنون ہمارے ذی ہوش ہونے پہ بہت بڑا سوال کھڑا نہیں کرتا؟

کیا یہ جنگی جنون ثابت نہیں کرتا کہ گر اس بدنصیب خطے کو ارباب و اختیار نادان ملے ہیں تو عوام نے بھی کسی دانشمندی اور عقل و فہم کا ثبو ت نہیں دیا۔ کون نہیں جانتا یہ بات کہ آج کے دور میں جنگ سب سے منافع بخش سودا ہے یہ حکومتوں کا مکروہ کاروبار ہے جس کا ایندھن ہم عوام ہیں اور ہمارے معصوم بچے ہیں۔

اس جنگی جنون کا فائدہ مگر کس کو ہے؟ کیا پاکستان اور پاکستانیوں کو جنگ فائدہ دے گی؟ کیا ہندوستان جیسا بڑا ملک جو بہت سے انتہا پسند رویوں کو جھیل رہا ہے کیا وہاں کے عوام کے لیے جنگ مزید تباہی بربادی اور غربت نہیں لاے گی؟ کیا سرحد پار کے عوام کے سب مسائل حل ہوگیے ہیں جو ہم دونوں پڑوسی جنگ جنگ کھیلنے کا خواب دیکھنے لگے ہیں؟ کیا جنگ واقعی کھیل ہے؟ کیا ہم پاکستانی اور ہندوستانی عوام واقعی یہ نہیں جانتے کہ جنگ وہ عذاب ہے جس میں صرف ہماری کوکھ، ہمارا مال، ہماری دولت، ہماری زندگیاں اجڑتی ہیں؟

ہم دونوں ممالک اب تک کئی بار جنگ کا میدان سجا چکے وہ پینسٹھ کی جنگ ہو یا اکہتر کی یا پھر کارگل کی ہربار نقصان ہم عوام کا ہوا ہم دنیا سے پچاس سال پیچھے چلے گئے۔ مغرب نے اپنے کارخانوں کی استعمال شدہ مشینیں ہمیں مہنگے داموں بیچیں اور ان سے منافع بخش اسلحے کے کارخانے لگائے گئے۔ اب ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لیے میدان درکار تھے، دوسرے معنی میں کہہ لیجیے قربانی کے بکرے یا پھر تجربہ گاہ کے چوہے درکار تھے۔

یہ چوہے کبھی ایران عراق کی صورت مل جاتے ہیں۔ کبھی کویت اور عراق کی صورت۔ کبھی شام کی گلیاں لہو میں نہانے لگتی ہیں۔ کبھی سعودی عرب اور یمن کی سرحدیں نظریات کی بوسیدہ آڑ لے کر ایک دوسرے پہ گولہ باری کرنے لگتی ہیں۔ کبھی ہم کبھی پڑوسی ملک قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں۔ کیا ہم جنوبی ایشیا و وسط ایشیا کے باشندے ہمیشہ قربانی کے بکرے اور تجربہ گاہ کے چوہے ہی بنے رہیں گے؟

سادہ لوح عوام آپ کے ہوں یا ہمارے وہ جو احمقانہ جنگجوئی کے جنون میں مبتلا ہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ جنگی جنون ہمیں اور آپ کو نگل جائے گا۔ سمجھانے پہ جو احمق یہ جواب دیتے ہیں کہ ”جنگ کھیڈنہیں ہوندی زنانیاں دی“ تو ان احمقوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ آپ مردوں کی کیا یہ اوقات نہیں یا توفیق ہی نہیں کہ امن کی بات کرسکیں۔

آپ نے ہم عورتوں کو جنگ کی خون ریزی کے علاوہ اور کیا دیا ہے؟ ہم نے آپ کو صحت مند بچے دیے اور آپ نے انہیں جنگ میں جھونک دیا۔ جو پلوامہ میں مرے وہ بھی ماؤں کے بیٹے تھے۔ اور وہ جو اس خون اگلتی وادی میں روز بے قصور ستر برسوں سے مررہے ہیں وہ بھی ہمارے بچے ہیں۔ ہٹلر نے کہا تھا اچھا سیاست دان وہ ہوتا ہے جو اپنی سیاسی ساکھ کی قیمت پر بڑے فیصلے کر دے ان فیصلوں کا انہیں اگرچہ نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

یہ زنانی بڑے فخر سے یہ بات کہہ سکتی ہے کہ مجھے جنگ درکار نہیں ہے اس لیے نہیں کہ ہم کمزورہیں یا ہمارا دفاع کمزور ہے۔ اس لئے کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ہمارا دفاع کن ہاتھوں میں ہے۔ مجھے امن آپ کے اور اپنے بچوں کے لئے چاہیے تاکہ انہیں تعلیم مل سکے، انہیں جنگوں کے دھوئیں سے آلودہ دریا نہیں چاہیں، انہیں پینے کو زندگی برتنے کو صاف پانی ملے، کھانے کو روٹی اور بیماری میں دوا ملے، کھانے کمانے اور زندگی کرنے کے لئے ایک پرسکون ماحول ملے۔

مجھے ان دنوں نوعمری میں پڑھی ایک کہانی شدت سے یاد آتی ہے جس میں ایک دور پار کے علاقے میں دو پڑوسی آباد تھے جو ریٹائرڈ فوجی تھے ایک امریکی تھا ایک روسی، ان دونوں کے بیچ ایک مسٹر راجر آکر آباد ہوگئے جو کہ جنگ سے بیزار ہوکر فوج چھوڑ آئے تھے یہ دونوں حضرات انہیں تمسخر سے بھگوڑا بلاتے چند دنوں میں مسٹر راجر پہ ہولناک انکشاف ہوا کہ ان کے دونوں پڑوسی جنگ کو گھر میں سمیٹ لائے ہیں اور اسلحہ جمع کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔

ایک صاحب گھرمیں بم رکھ رہے ہیں اور دوسرے ڈاینامائیٹ۔ جب دوسرے کو خبر ہوتی ہے تو وہ ایک توپ لے آتے ہیں غرض یہ سلسلہ شدت و عروج پہ ہے اور مسٹر راجر سے ان کی وفاداریوں کے بارے شدت پسند انہ استفسار اختیار کیا جارہا ہے اور یہ علاقہ روز بروز مسڑ راجر اور ان کے خاندان کے لیے غیر محفوظ بنتا جارہا ہے اور جنگی جنون میں مبتلا پڑوسی ان پہ بھگوڑے کے آوازے کستے ہیں۔ ایک رات وہ اپنے خاندان کے ساتھ خاموشی سے اس علاقے سے نکل جا تے ہیں۔

یہ تو کہانی تھی استعماری قوتوں کے استعاروں پہ منہ زور طمانچہ تھا۔ مگر آج کی یہ قوتیں بہت سمجھدار ہوگئی ہیں وہ جنگ، جنگی جنون اور ہتھیار اپنے گھروں میں نہیں ہمارے دروازوں پہ لے آئیں ہیں اور ہم پہ تمسخرانہ ہنس رہے ہیں کہ یہ لو اور کھیلواور ہم، ہم جو تجربہ گاہ کے چوہے ہیں، قربانی کے بکرے ہیں، پوری قوت سے گلا پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کو بھگوڑا کہہ رہے ہیں، ہر حکمت، ہر دانش وفہم کو بالائے طاق رکھ کر جنگ اور بربادی کو آواز دے رہے ہیں۔ اس معاملے میں کیا سوشل میڈیا، کیا برقی میڈیا، ادیب برادری سب نے دانش و دور اندیشی کو تیل لینے بھیج دیا ہے۔

ہمیں ڈر ہے کہیں کوئی ہمیں بزدل نہ کہہ دے
کہیں کوئی ہمیں بھگوڑا نہ کہہ دے
ہم سب سے زیادہ خون خوار ہیں

مجھے آج عوام تو عوام ادیبوں جیسے خواص کے قبیلے کے غیر ذمہ دارانہ بیانات، پوسٹس، ٹویٹس پڑھتے ہوے آیام جاہلیت کے شعرا و قصیدہ خواں یاد آتے ہیں ان میں نامور و بہادر وہی ہوتا تھا جو جتنی زیادہ آگ سلگا سکتا تھا۔ تاسف، افسوس، حیرت سب یکجا ہوجاتے ہیں جب اس جنگی جنون میں مبتلا ہر خاص و عام، مرد وزن کو دیکھتی ہوں۔ میری اپنے ملکی ادیب برادری سے ہی نہیں بلکہ سرحد پار کے ہر ادیب سے پر زور اپیل ہے کہ جنگی جنون کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ہمارا نعرہ جنگ سے پاک خطہ ہونا چاہیے
ہمارا نعرہ جنگ سے بیزاری ہونا چاہیے
آئیے صدا ملائیے ہم جنگ سے بیزار ہیں

آج کے اس دور میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی جاتی ہے دو پڑوسی ملک جن کے ادب فن اور کھیل کے میدان میں ہیروز مشترک ہیں، محبت کے امکانات وسیع ہیں وہاں جنگ کیوں؟
ہر تباہی بربادی کے بعد بھی مسئلہ حل مذاکرات کی میز پہ ہونا ہے تو پہلے کیوں نہیں۔

ظلم تو ظلم ہے پلوامہ میں ہو یا پوری وادی خون و جبر کے رنگ میں ڈوبی ہو، آواز ہر دو صورت اٹھنی چاہیے اور یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ وادی فوجی محاصرے و حالت جنگ میں ہے، ایسی صورت میں ایسے سانحات جنم لیتے رہیں گے۔

اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہوگا دونوں ملکوں کو
ایسے سانحات پہ دکانداری آخر کب تلک
اس دکانداری کے گاہک ہم عوام آخر کب تلک
گر ایسا ہی ہے تو اس جنگی جنون سے بیزار ہیں ہم

اور خداناخواستہ اگر بات جنگ تک پہنچ جاتی ہے تو جنگ کی صورت میں نا صرف ہزاروں عورتیں بیوہ ہو جائیں گی، بچے یتیم ہو جائیں گے بلکہ قریہ قریہ خاک اڑے گی لوگ بھوک سے مریں گے کہ ہمارے پاس جنگ کی اتنی ہی سکت ہے وہ بھی اگر یہ روایتی جنگ ہوئی تو اور اگر جنگ ایٹم بم چلانے پر چلی جائے تو پھر اس خطے کے دو ارب لوگوں کی جان داؤ پر لگ جائیں گی۔ جب ایٹمی دھماکے کیے جا رہے تھے تو تب کہا جا رہا تھا کہ اب روایتی جنگ نہیں ہو گی ہم نے دونوں خطوں میں ایٹم بم کی صورت جنگ کے خلاف ایک ڈیٹرینٹ قائم کر دیا ہے اس کے باوجود اگر جنگ کے الاؤ کو بھڑکایا جا رہا ہے تو کیوں؟

انڈیا سے راحت اندوری کے الفاظ میں
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
(دہلی اور اسلام آباد)
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).