دشمن کا شہر دلّی


دلّی دو مرتبہ جانا ہوا۔ پہلی بار اپنے ایک ڈرامے ”میری ادھوری محبت“ کی لوکیشن ریکی کے لیے ڈرامے کی ٹیم کے ساتھ۔ پہلے دن ہی ہم چاندنی چوک پہنچ گئے۔ سائیکل رکشا پر چاندنی چوک کے ہجوم سے گزرتے ہوئے جب تنگ گلیوں میں داخل ہوئی تو اچانک لگا کہ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہ رہی ہوں۔ جوں جوں گلیاں گلیوں میں اترتی جاتی تھیں، میری گھٹن بڑھتی جاتی تھی۔

اندر سے ایک خوف سر اٹھانے لگا کہ ابھی ان تنگ گلیوں میں بلوا ہوجائے گا! ابھی کرپانیں نکلیں گی اور یہ تنگ گلیاں خون کی ندیاں بن جائیں گی! دونوں جانب کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر ٹنگی سُرخ و نارنجی رنگ ساڑھیاں مجھے شعلوں کی مانند دکھ رہی تھیں۔ بلوا۔ بلوا۔ چیخ و پکار۔ آہ و بکا۔ خون۔ لاشیں۔ بلآخر میں نے آگے جانے سے انکار کردیا۔

اُس پہلی رات ہوٹل کے کمرے میں سونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مجھ پر پہلی بار انکشاف ہوا کہ میرے لاشعور میں بچپن سے بٹوارے سے متعلق کہانیاں اور نصابی تاریخ بسی ہوئی ہے! اور اب یوں لگ رہا تھا جیسے میں خود بلوائیوں کی کرپانوں اور برچھیوں سے خونم خون گزر کر، لاشوں سے لدی ریل میں سندھ کے ریلوے اسٹیشن پر اترنے کے تجربے سے گزر چکی ہوں!

جاگ کر گزاری اُس رات کمرے کے دروازے کے آگے میں نے صوفہ رکھ دیا تھا کہ کہیں بلوائی نہ گھس آئیں مجھے ڈھونڈتے ہوئے! پر میں تو سندھی ہوں! نہ میں یہاں کبھی تھی، نہ ہی میرے اجداد کبھی یہاں تھے! اس طرح کی بہت سی خودغرض تسلیاں دیں خود کو، مگر خوف کا پسینہ تمام رات بھگوتا رہا مجھے۔ اس تجربے نے مجھ پر منکشف کیا کہ خوف و نفرت کس طرح ذہنوں میں سفر کرتے ہوئے لاشعوری طور پر دشمنی کے احساس میں ڈھلتے ہیں!

اگلے دن جامع مسجد دلّی سے ملحق مسلمانوں کی آبادی میں گھومتے ہوئے، مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنے اجداد کی چھوڑی ہوئی گلیوں میں آگئی ہوں! ان تنگ گلیوں میں چلتے پھرتے، مفلسی و ناداری کی تصویر بنے، گہرے سانولے رنگ، دبلے پتلے لاغر جسم مسلمان جو کہیں سے بھی میرے لمبے چوڑے وجود سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، مجھے بہت ہی اپنے اپنے سے لگ رہے تھے۔

ڈرامے کی لوکیشن کے لیے گھروں کو دیکھتے ہوئے، میں ہر بوسیدہ در و دیوار کی دراڑوں میں آنسو اور خون کے قطرے تلاش کرتی پھری۔ جی چاہتا کہ سیاہ بوسیدہ برقعوں میں ملبوس عورتوں کو پکڑ پکڑ کر پوچھوں کہ بتا سکھی تجھ پر کیا بیتی؟ دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے جھریوں بھرے بوڑھوں سے پوچھوں کہ بتائیے بڑے میاں، آدھا خاندان کیا ہوا؟ کون کٹ مرا اور کون آپ کو یہیں کھڑا چھوڑ گیا؟ اور آپ کیوں نہ چھوڑ سکے دلّی شہر کو!

اسی دوران اپنی کیفیت کا تجزیہ کرتے ہوئے خود پر افسوس بھی ہوتا رہا کہ شاید پاکستانی ہونے کے ناتے میں بھی ہندو مسلم تعصب میں مبتلا ہوں اندر سے! مگر جب اندرون شہر، ایک قدیم ترین مندر دیکھنے گئے تو میرے اندر کا مومن ذرا بھی نہ ڈگمگایا! مندر کے رکھوالے نے کہا کہ جوتے اتارو۔ میں نے اتار دیے۔ رکھوالے نے کہا چمڑے کی چیزیں لے جانا منع ہے۔ میں نے اپنا پرس رکھ دیا۔ رکھوالے نے کہا۔ تین بار ہاتھ دھو اور تین بار کلی کرو۔ میں نے تین بار ہاتھ دھوئے اور کلی کی۔

تنگ و نیم تاریک سیڑھیاں چڑھ کر مندر میں داخل ہوئے تو سفید پتھر، سونے اور چاندی سے بنی مورتیاں محرابوں کے بیچ بیٹھی تھیں۔ میں انسانی ہاتھ کا ہنر دیکھتے ہوئے قدم قدم چل رہی تھی کہ میرے ساتھ آئے ایک نوجوان نے سرگوشی میں پوچھا، آپ کو گھن نہیں آرہی ان سے؟ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے وضاحت کی، میرا مطلب ہے کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے؟ میں نے لمحہ بھر خود پر غور کیا کہ مجھے گھن آرہی ہے یا نہیں؟ میرے اندر سے جواب آیا۔ نہیں۔ اور میں اس اطمنان کے ساتھ اگلی مورتی کی طرف بڑھ گئی کہ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے تعصب کی بیماری نہیں۔ مگر دلّی کے وہ چار دن میں اپنے اندر دبے تجسس کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں چلتے پھرتے لوگوں کے چہروں پر تعصب اور نفرت تلاش کرتی پھری! ہندو چہرے! مسلمان چہرے! بھیڑ میں آپس میں گڈمڈ ہوتے ہوئے مفلس چہرے! سائیکل رکشا کھینچتے پسینے میں شرابور چہرے!

میرا دماغ ان ہی چہروں پر غور کرتا رہا کہ کون سا چہرہ ہندو ہے اور کون سا چہرہ مسلمان! کیا واقعی ان کے سینوں میں اس وقت نفرت کا لاوا دبا رکھا ہوگا! کیا واقعی ایک دوسرے سے کندھا رگڑ کر چلتے ہوئے ان کی آستینوں میں ایک دوسرے کے لیے خنجر چھپے ہوں گے! کیا واقعی کسی بھی وقت یہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے! مگر جو منظر نگاہ کے سامنے تھا وہ یہ کہ ہر طرح کے بلوے اور بٹوارے سے بے نیاز انسانوں کا انبوہ زندگی کا سائیکل رکشا کھینچنے میں جتا ہوا تھا۔

میں نے جانا کہ یہ سب چہرے اسی دھرتی سے آپ ہی آپ خودرو پودوں کی طرح اُگ آئے ہیں، جو ان کی اپنی دھرتی ہے۔ ان کے باپ دادا کی دھرتی ہے۔ ہزارہا برس سے ان کا بیج اس میں بویا ہوا ہے۔ خون کی اُبلتی ندیوں میں بھی یہ ایک دوسرے کے لیے غیر نہیں! ایک ہی مٹی سے گندھے ہوئے ہیں یہ سب! ہندوستان کی مٹی سے گندھے ان کے وجود اور اس مٹی میں مدفون ان کی نسلوں کی خاک اور ہندوستان کے پانیوں میں گھُل چکی اجداد کی راکھ انہیں بہرحال آپس میں یوں جوڑے ہوئے ہے جیسے آٹا پانی سے گوندھا جاتا ہے۔ پھر آگ پر روٹی بنتا ہے۔ اور روٹی سب کا پیٹ بھرتی ہے ، بلوا کرنے والے کا بھی اور بلوے کا نوالہ بننے والے کا بھی۔

کسی آرٹ اکیڈمی کے باہر، برگد کے درخت تلے بنے چائے کے ڈھابے کا وہ منظر میرے لیے بہت پرکشش تھا جب ماڈرن نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بیچ میلی ساڑھیوں میں دو صفائی والی عورتیں کچرے کے ٹوکروں اور ان میں پڑے جھاڑو سمیت چائے کے لیے آکھڑی ہوئیں۔ دو نوجوان لڑکوں نے اٹھ کر ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ خالی کردی۔ ان کے ساتھ کی لڑکی ان دو عورتوں کے ساتھ بینچ پر جُڑی بیٹھی بھی رہی اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے انہیں چیونگم بھی آفر کی۔ نفرت سے انسان کس طرح مزاحمت کرتا ہے، کہ ایک ذرا سی چیونگم بھی کام کرجاتی ہے! یہ میں نے دشمن ملک کے دو نوجوان بچوں سے سیکھا۔ نفرت کے الاؤ کو بجھانے کے لیے کوئی بھی ریاست اپنی فائر برگیڈ استعمال نہیں کرتی۔ یہ کام محبت کی ننھی ننھی بوندیں کرتی ہیں جو عام لوگوں کے دلوں سے پھوٹتی ہیں۔

دلّی کے اسی سفر میں لوکیشنس دیکھنے کے لیے ہمارا ہندو ایجنٹ بولی ووڈ ممبئی کا تھا۔ پہلے دن لنچ پر حلال گوشت کے ہوٹل لے جاتے ہوئے اس نے ایک سوال کیا۔ آپ سب لوگ محمڈن ہیں نا؟ میرے ساتھ کے نوجوان لڑکوں نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟ اور میں ؟

یہ نسبت یا لفظ برصغیر کی تاریخ میں بچپن سے پڑھتی آئی تھی، اس لیے قطعی اجنبی نہیں تھا میرے لیے، مگر ایک دن کوئی مجھ سے یہ سوال کرے گا کہ آپ محمدن ہیں! اس سوال نے مجھ پر عجب سحر طاری کردیا کہ میں محمدن ہوں! دشمن ملک کے ہندو نوجوان نے مجھے شناخت کی وہ متاع دے دی جو اس سے پہلے میرے ذہن میں نہ تھی کہ میں محمدن ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah