ملائیکہ اروڑا نے ارباز خان سے طلاق کی وجوہات بتا دیں


برصغیر کے معاشرے کو عام طور پر جن چیزوں میں سب سے زیادہ دلچسپی رہتی ہے ان میں سے ایک طلاق شدہ خواتین اور ان کی طلاق کے بعد زندگی بھی ہے۔ جہاں کہیں کسی عورت کو طلاق ہوئی سماج اس کے دروازے پر جاکھڑا ہوتا ہے اور بغل میں دبی اخلاقیات کی کتاب نکال کر زور زور سے سبق پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ٹھالی برادری کے لوگ بھی وہیں مجمع لگا لیتے ہیں اور یوں میلہ سا سج جاتا ہے۔ اس تماشے میں کسی کو یاد نہیں رہتا کہ عورت بھی انسان ہے اور اس کی بھی کوئی عزت ہے۔ خیر، اس پر آگے بات کرنے سے پہلے ذرا ایک انٹرویو کا ذکر کر لیتے ہیں۔

ارباز خان سے طلاق لینے کے دو سال بعد آخر کار ملائیکا اروڑا نے اپنی خموشی توڑ ہی دی۔ اپنی دوست کرینہ کپور خان کے ریڈیوں شو واٹس وومن وانٹ میں انہوں نے اپنی طلاق پر کھل کر بات کی، ان کے مطابق وہ اس موضوع پر ایک دوست کے ناطے کرینہ سے تسلی بخش بات کر سکتی ہیں۔ ملائیکہ کا کہنا تھا کہ انسان ہونے کے ناطے ان کے لئے خوشی زیادہ اہمیت رکھتی ہے لیکن وہ اور ارباز دونوں ہی اس شادی میں خوش نہیں تھے، جس کا اثر اِن دونوں کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر لوگوں پر بھی پڑ رہا تھا۔ ملائیکہ نے مزید کہا کہ ارباز کے ساتھ دوستی اب نا ممکن ہے بچوں کی وجہ سے آپ کا رشتہ نارمل تو ہو سکتا ہے لیکن اب وہ دوست نہیں بن سکتے۔

ملائیکہ سے جب پوچھا گیا کہ ان کے بیٹے ارحان پر اس طلاق کا کیا اثر پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچے کو ایک پرسکون ماحول میں دیکھ کر زیادہ خوش رہوں گی نہ کہ ایک ایسے ماحول میں جو پریشان کن ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے عمر اور وقت کے ساتھ یہ قبول کر لیا ہے کہ اس کے والدین الگ رہ کر جتنے خوش ہیں اتنا ساتھ رہ کر نہیں تھے۔

حالانکہ ملائیکہ نے اعتراف کیا کہ طلاق کا فیصلہ کافی مشکل ہوتا ہے خاص کر عورت کے لئے کیونکہ طلاق کے بعد عورت کے لئے چیزیں بدلتی ہیں۔ عورتوں کو سماج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مرد طلاق کے بعد آسانی سے نکل جاتے ہیں۔ ملائیکہ نے کہا کہ طلاق کے بعد عشق کرنا یا ڈیٹ کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ ملائیکہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو دوبارہ پیار ضرور ڈھونڈھنا چاہیے۔ گویا ملائیکہ باتوں ہی باتوں میں کہنا چاہ رہی تھیں کہ طلاق کے بعد ارجن کپور سے رشتہ رکھ کر انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ اس مرحلہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ارباز بھی طلاق کے بعد اپنی گرل فرینڈ جورجیا اندئیانی کے ساتھ معاشقہ کی وجہہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔

یوں تو ملائیکہ کی پوری گفتگو ارباز سے اپنی طلاق پر تھی لیکن جو باتیں انہوں نے کہیں وہ ہمارے معاشرے کی خواتین کا اجتماعی المیہ ہے۔

ایک عورت اپنی طلاق کی وجہہ صرف اپنی خوشی بتائے یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو نامناسب لگے گی۔ ایک ایسے سماج میں جہاں شادی شدہ لڑکی کو بدترین حالات سے دوچار ہونے کے باوجود گھروالوں کی طرف سے یہی ہدایات دی جاتی ہو کہ کسی بھی حال میں شوہر کا گھر نہیں چھوڑنا ہے اور اس کی پریشانیوں کو اس کی قسمت کا لکھا کہہ کر قبول کرنے کی دہائی جاتی ہو، ایسے میں ملائیکہ کا اپنی خوشی کے خاطر طلاق لے لینا بہت سوں کی سمجھ میں آ بھی نہیں سکتا۔

ہمارے سماج میں عورت کو بہن، بیوی، بیٹی یا ماں کے کردار میں ہی دیکھنا پسند کیا جاتا ہے۔ عورت جب ان کرداروں کی کسوٹیوں پر کھری اترتی ہے تبھی وہ ایک کامیاب عورت کہلا پاتی ہے۔ عام طور پر ہمارے یہاں عورتوں کی تعلیم سے لے کر نوکری تک سب کچھ صرف گھرداری کو پیش نظر رکھ کر کرایا جاتا ہے۔ اسی کے کندھوں پر گھر سمبھالنے کی ذمہ داری ہوگی، شوہر کو خوش رکھنا ہوگا، اولاد کی پرورش کرنی ہوگی اور یہی سب کرتے کرتے اسے اپنی تمام عمر گذارنی ہوگی اب چاہے وہ یہ سب خوشی خوشی کرے یا ماراباندھی سے۔

ملائیکہ کا یہ موقف کہ عورت کو طلاق کے بعد دوبارہ پیار کی تلاش کرنی چاہیے بھی بہت سے روایت پسند سینوں پر چھری بن کر گڑا ہوگا۔ خاص طور پر اُن گھروالوں کو یہ گستاخ موقف برداشت نہیں ہو سکتا جو وقت کے ساتھ ساتھ شوہر کے تبدیل ہوتے رویہ پر بھی عورت کو صبر کرنے کی ہی تلقین فرماتے ہیں۔

شوہروں کی دلچسپی میں بتدریج کمی کی وجہہ سے کئی بار خواتین اپنے جینوئن مسائل بھی ان کے ساتھ شیئر نہیں کرتیں اس لئے کہ ان کی ممکنہ سرد مہری انہیں مزید اذیت دے گی۔ طلاق کے تعلق سے سماج کا یک رخا اور منافقانہ رویہ خواتین کے زخموں پر نمک کا کام کرتا ہے۔ طلاق شدہ خاتون کو جو ارشادات اکثر سننے پڑتے ہیں ان میں کچھ اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں جیسے اگر وہ صبر کر لیتی تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی، میکے سے ایک بار ڈولی جائے تو سسرال سے اس کا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے، مرد تو ہوتے ہی ہیں غصے والے وغیرہ وغیرہ۔ یہ نصحیتیں سماج کی وہ بڑی بوڑھیاں بھی فرما دیتی ہیں جو ان مسائل سے گزر چکی ہوتی ہیں لیکن حالات سے سمجھوتے کو ہی مقدر جان لیتی ہیں۔ اس سماج کو یہ کب سمجھ میں آئے گا کہ عورت کی بھی ایک عزت نفس ہے جسے وہ ایک حد تک ہی پائمال دیکھ سکتی ہے۔ عورت بھی کسی کی چاہت اور توجہ پانے کا حق رکھتی ہے۔

یہاں ہم سماج میں عورت اور مرد کو مساوی حقوق دینے کی بات نہیں کریں گے اس لئے کہ اس کی حقیقت تو سبھی جانتے ہیں۔ یہاں ہمیں اس پر توجہہ دینی ہوگی کہ اخلاقی تعلیمات اور صبر کا گٹھڑ خواتین کے سروں پر ہی لادتے رہنے کے بجائے مردوں پر بھی ذرا بہت سی ذمہ داری ڈالی جانی چاہیے۔ سماج کا یہ عمومی رویہ کہ عورت کا اپنا کوئی وجود نہیں عورت کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے۔

ازدواجی زندگی کا ادارہ اگر واقعی دو وجود ملکر کھڑا کرتے ہیں تو پھر اس ادارے کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی دونوں کی ہونی چاہیے۔ برصغیر کی ایک عام عورت جو ہر نرم و گرم ماحول میں اپنے شریک حیات کا ساتھ دیتی ہے، سسرال کے سخت سے سخت ماحول میں بھی اپنے ہونٹ سی کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہتی ہے کیا اس عورت کے جذبات کا اتنا ہی احترام کیا جاتا ہے؟ یہ نہ بھولئے کہ اب خواتین کے مزاج میں تبدیلی آرہی ہے۔ وہ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ جس اطمینان سے مرد زندگی گذار رہے ہیں وہ خوشیاں اور سکون انہیں حاصل نہیں ہے۔

اس بے چینی اور عدم اعتماد کا ہی ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ خود کفیل خواتین اکیلے رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ تبدیل رویوں میں تپتے تپتے کچھ خواتین اتنی سخت ہو جاتی ہیں کہ ان میں زندگی کے ہر اتار چڑھاؤ کا اکیلے سامنا کرنے کا حوصلہ آجاتا ہے جس کے بعد وہ ٹھان لیتی ہیں اور سماج کی پرواہ کیے بغیر جہنم سے نکل جاتی ہیں۔ سماج کو چاہیے کہ وہ ان عورتوں کو اکیلے زندگی گذارنے کا حق دے دے اور ان کی زندگیوں میں دخل اندازی نہ کرے۔

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صائمہ خان، اینکر پرسن دور درشن، دہلی

صائمہ خان دہلی سے ہیں،کئی نشریاتی اداروں میں بطور صحافی کام کر چکی ہیں، فی الحال بھارت کے قومی ٹی وی چینل ڈی ڈی نیوز کی اینکر پرسن ہیں

saima-skhan has 12 posts and counting.See all posts by saima-skhan