سچ دبتا ہے، دھوکا دھڑلے سے بکتا ہے!


پون صدی کسی ملک، قوم کے ارتقا اور کامیابی کے لیے کم نہیں۔ اس عرصے میں تین نسلیں گزرتی ہیں، نیت اگر صاف، ارادہ اٹل، دلوں میں نفاق نہ ہو، اس مدت میں ترقی کیا، زمین و آسمان کی وسعت با آسانی طے ہو سکتی ہے۔ اتنے سالوں کے ضیاع کے بعد اپنی حالت تو کیا بدلنی تھی، اب تک بطور قوم ہی متحد نہیں ہو پائے۔ دیگر بہت سی وجوہ کے ساتھ اس کی وجہ یہ بھی ہے، ہم سیاسی عقیدتوں کی بنیاد پر بری طرح تقسیم ہیں، یہ جملہ استاد محترم نصرت جاوید صاحب کا ہے اور درویش بھی اکثر مستعار لیتا ہے۔

بڑی حد تک ہمارے انتشار و اضمحال کی تشخیص ہے۔ سونے پہ سہاگہ تقسیم کا عمل سیاسی بنیادوں تک محدود نہیں رہا، پچھلے کچھ عرصے میں لبرلز اور مذہب پرستوں کا دلیل سے بڑھ کر کدورت اور دشنام تک پہنچتا عدم اتفاق بھی قومی وحدت کے آڑے آتا رہا۔ سیاسی معاملہ ہو یا قومی سلامتی سے متعلق امور، مذہبی اور فقہی مسائل ہوں یا خالصتا سماجی اور معاشرتی اقدار، ہر جگہ ہر دو جانب سے زبانی کلامی طنز وتشنیع کے بجائے، عملا لٹھ بازی تک نوبت پہنچتی ہے۔

کوئی کسی سے کم نہیں، نہ مخالف کی بات توجہ سے سننے کا روادار۔ ایک کا سچ دوسرے کے لیے جھوٹ، لغو اور بے بنیاد، اور دوسرے کی خدا لگتی کہی بھی پہلے کے لیے سازش، بیرونی ایما اور ملک و قوم سے غداری کے مترادف۔ اگر درویش کچھ کہے، اس کے چاہنے والے خود سے تحقیق کے بجائے، آمنا صدقنا پر یقین رکھیں گے۔ مخالف کچھ بتائیں ان کے مداحوں کے نزدیک وہی بات بس حرف آخر۔ خود سے اس قوم میں کسی کو تحقیق کی حاجت نہیں، نہ سچائی تک پہنچنے کی جستجو۔

دانشوری کے نام پر فکری دہشتگردی کرنے والوں نے عامیوں کے ذہن یرغمال ہی اس طرح بنا رکھے، انہیں گردن ہلا کر اردگرد دیکھنے کی مجال نہیں۔ دوسروں کو برداشت، مکالمے کی افادیت پر زور دیتے افراد کا ذاتی طرز عمل کیا بتاؤں، بہت سے بڑے برگزیدہ نام جن سے کبھی قریبی تعلق رہا، اپنے مفادات کی خاطر مخالفین کو بادشاہت کے طعنوں سے نوازنے والے۔ غیبت کی عادت نہیں، صاحبان ذی وقار کا اپنا طرز عمل بیان کروں تو عقیدت مند آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔ غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے اور دشنام کے غبار اڑانے میں مصروف برگزیدہ شخصیات کو سچائی اور قوم و ملک کی بھلائی کی بالکل فکر نہیں۔ خیال ہے تو محض اتنا میری آواز سب سے اونچی ہو، لہجہ دو ٹوک اور حتمی ایسا کہ بس مستند ہے صرف میرا فرمایا ہوا۔

پرسوں ایک ایسے ہی دانشور جو لبرل ازم کے حامی ہیں، جن کے نزدیک اس ملک کی ترقی میں واحد رکاوٹ ایک خاص محلول کی کھلے عام فراہمی پر قدغن ہے۔ سیاحت بھی اسی وجہ سے رکی ہوئی، ترقی اور ایجاد بھی اسی لیے بند کے دماغ کی چوک شریانیں کھولنے کے واسطے مذکورہ محلول یہاں کھلے عام دستیاب نہیں، ورنہ یورپ، امریکا نہیں تو ترکی اور ملائیشیا کو تو کم از کم مات دے ہی دیں۔ خدا کے بندے کو کون سمجھائے، سیاحوں کی ضرورت انفرا اسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور قیام و طعام کی سہولت، امن و امان اور سب سے بڑی بات مقامی آبادی کا رویہ بھی ہوتا ہے۔

پرسوں موصوف فرما رہے تھے، انڈین دھمکیوں کے جواب میں فارن آفس کا جواب کافی تھا۔ پھر چلیں وزیراعظم نے بیان دے دیا، لیکن اس کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی کیا ضرورت تھی۔ قوموں کے عروج و زوال، پچھلی دو صدیوں میں ہوئی تبدیلیوں اور دونوں جنگ عظیم کی تاریخ کے بارے میں جناب، اس طرح بات کرتے ہیں ان سے زیادہ شاید ہی کوئی واقف ہو۔ حیران ہوں کہ انہیں خبر کیوں نہیں کہ بیرونی دنیا ہمارے ملک میں طاقت کا اصل مرکز کسے سمجھتی ہے اور یہاں سے اٹھنی والی کس آواز پر دھیان دیا جاتا ہے۔

تاریخ پر عبور رکھنے والے مذکورہ دانشور جانے کیوں یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد بڑی طاقتوں کو آپس میں دوبارہ جنگ کی ہمت کیوں نہیں ہوئی؟ چلیں دور کی چھوڑیں اسی کی دہائی کے بعد چار مرتبہ یہ کیفیت پیدا ہوئی کہ جنگ ابھی ہوئی کہ صبح ہوئی۔ ہوئی مگر کیوں نہیں، فوج سے تعلق رکھنے والے جناب مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے، اور کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن سے ہوا کیوں نکلی، اور جنرل آصف غفور کا بیان کہ ہم بھارت کو اس بار حیران کر دیں گے، اس کی بنیاد کیا ہے یا وہ کیا گیڈر سنگھی تھی جس کا ڈراوا وہ بھارت کو دینا چاہتے تھے۔

انہیں کے ساتھی ایک برگزیدہ دانشور جنہیں صحافت کے دشت میں پچاس سال سیاحی پر بڑا زعم ہے، ان کے کالموں اور تجزیوں کا آغاز و اختتام قرآن و حدیث کے حوالوں پر ہوتا ہے۔ اسی پروگرام میں بہاولپور میں مولانا مسعود اظہر کے مدرسے کو سرکاری تحویل میں لینے پر تبصرے کا موقع ملا تو، جوش میں فرمانے لگے یہ مسعود اظہر اور حافظ سعید پاکستان پر بوجھ ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ان کو آزادی دی جاتی ہے، گویا ان کی نظر ہے میں سگ آزاد ہونے چاہیے اور سنگ مقید۔

حیرت ہے انہیں پچاس برس صحافت کرتے ہوئے علم نہیں ہوا مدرسہ کو تحویل میں لینے کا اصل مقصد کیا ہے؟ انڈیا جب تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کرتا ہم کیوں اپنے کسی شہری کو پابند سلاسل کریں؟ کیا یہ اپنا مقدمہ کمزور کرنے یا دباؤ میں آنے والی بات نہ ہو گی؟ یہ صرف حفاظتی تحویل ہے جو ضروری تھی، یہ نقطہ پیش نظر ہرگز نہیں جو جناب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جہاں تک حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی کا تعلق ہے، کوئی بھی میرے ساتھ تھر کے صحرا میں چلے، دکھاؤں کہ ان کے رضاکار کس طرح نچلی ذات کے ہندوؤں کی خدمت کر رہے ہیں۔

بات یہیں پر رہتی تو درویش ردعمل ہرگز نہ دیتا، جناب آگے چل کر فرماتے ہیں، امت کو کسی واعظ کی کیا ضرورت ہے جو طارق جمیل جیسے لوگوں کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ قرآن پاک موجود ہے، تفاسیر دستیاب، احادیث کا سرمایہ بھی محفوظ اور وہ بھی اپنی زبان میں۔ ہر کوئی خود مطالعہ کرلے کیا ضرورت پڑی ہے ایسے مولویوں کی؟ جناب گستاخی معاف پھر ایک کام اور کریں، بچوں کو صرف میٹرک تک تعلیم دیں، انگلش اور اردو پڑھنا، لکھنا اور سمجھنا انہیں اچھی طرح سمجھا دیں۔

پھر ہر موضوع پر کتابوں کا ڈھیر ہے، خود ہی ڈاکٹرز اور انجنیئرز تیار ہو جائیں گے۔ زیادہ ہے تو انجنیئرنگ کے خواہش مندوں کو رینچ، اسکرو ڈرائیور اور دیگر اوزار فراہم کریں اپنے گھر کی گاڑی پنکھے اور اے سی پر تجربہ کرنے دیں۔ میڈیکل والوں کو اسٹیتھو اسکوپ، بلیڈ پریشر شوگر چیکنگ کے آلے بلکہ استرا اور سیزر بھی دے دیں، قریب المرگ کسی نانے دادے کا آپریشن کر کے وہ سرجن اور فزیشن بھی خود بن جائیں گے۔

آخر میں ایک اور عرض کہ آپ جیسے حضرات لاکھوں روپے کے عوض دانشوری جھاڑنا بھی چھوڑ دیں۔ درویش ایسے جہلا شب و روز سیاست کے نام پر ہونے والا تماشا بھی خود سمجھ جایا کریں گے، ویسے بھی آپ کی دانشورانہ نگاہ سے تو ہماری احمقانہ بصیرت ہی بھلی، جس شخص کی آپ بائیس سال سے مدح سرائی کر رہے تھے، اب واویلہ کرتے ہیں کہ چھ بار فون کرنے پر وہ آپ کا فون نہیں اٹھاتا اور اس کی حکومت کی کارکردگی آپ کے بقول ہی صفر، ہم ایسے ناقص اذہان روز اول سے اس بارے مشکوک تھے کہ کار مملکت چلانا اس کے بس کا روگ نہیں۔ آخری سوال یہ جن کی مدح سرائی میں آپ نے کتاب لکھی، اور جن جرنیلوں کو صبح شام فرشتہ ثابت کرنے میں توانائیاں لگاتے ہیں، مسعود اظہر اور حافظ محمد سعید کبھی ان کندھوں کے بغیر اس مقام تک پہنچ سکتے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).