سندھی عورت اور شاہ لطیف


شاہ عبداللطیف بھاٹی کی پہچاں سندھی سماج میں فکری رہبر کی ہے پھر خواہ دور کوئی بھی ہو لیکن سندھ کے لوگ شاہ لطیف کے فکر سے جؑڑے ہوئے ہیں۔ لیکن عورت اور لطیف کا آپس کا تعلق بہت ہی گہرا ہے! آپ دنیا کے پہلے فیمینسٹ شاعر ہیں جس نے اپنی شاعری کے سات سُر سندھ کی سات عورتوں ( سورمیوں ) سے وابستہ کیے ہیں اور یہ سات عورتیں سندھ کے نامور کردار کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

جب دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اس بات کو سلجھا نہیں پا رہے تھے کہ آخر یہ عورت کا معمہ کیا ہے تب لطیف نے کہا عورت محبت ہے! جب عورت کو گوشت کا لوتھڑا سمجھا جارہا تھا تب لطیف نے کہا عورت احساس سے بھرا انسان ہے۔ جب عورت کو ایک خوبصورت معشوق سے تشبیہ دی جارہی تھی تب لطیف نے کہا عورت عاشق ہے کیوں کہ عورت ہی عشق کرتی اور نبھاتی بھی ہی۔ عورت کا عشق ایک تسلسل ہے جو عمر بھر اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے

سندھی عورت کا آئیڈیل لطیف ہے یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ ان عورتوں کا لطیف کی ساتھ انتھک اور اٹوٹ تعلق ہے کئی عورتیں جو انڈس ڈیلٹا کے کریکس (کھاریاں ) میں بستی ہیں جن کا شہری علاقوں کا کوئی ایکسپوئیر نہیں ہے ان کی تعلیم کسی تعلیمی ادارے سے نہیں ہوٖئی ہے لیکن لطیف سے پوری طرح واقف ہیں اور اُن کو لطیف زبانی یاد ہے۔ شاید باقی شعرا کا اٌنہیں کوئی علم نہیں ہے پر لطیف ان کے روح میں بسا ہے۔ جب ہم سندھی عورتیں جوانی کی دہلیز پرپہلا قدم رکھتی ہیں اور جب زندگی کا پہلا عشق کرتی ہیں تو اٌس مرد میں جانے یا انجانے میں لطیف ہی ڈھوندھتی ہیں یہ اور بات ہے کے لطیف غیرمعمولی تھا اور ایک ہی تھا۔

یہ عورتیں خوش ہوتی ہیں تو ان کو لطیف کی شاعری یاد آتی ہے جب دکھی ہو تو بھی لطیف ہی ان کا سہارا بنتا ہے، لطیف سندھی عورت کے اندر ایسے رچے بسے ہوئے ہیں جیسے دریائے سندھ اور سندھی سمندر کا فطری سنگم ہو۔ آخراس کی وجہ کیا ہے؟ بات بڑی سیدھی سادی سی ہے کہ لطیف عورت کے احساسات کو چھٌوکر بلندیوں پہ لے گیا، وطن سے ولہانا محبت کی بات آئی تو ماروی کی بات کی، جدوجہد پر بات کی تو سسی کا کردار بتایا۔ لطیف کہتے ہیں۔

ڈھونڈوں یار پنہل کو، تنہا اب کی بار۔ تیز نکیلے پتھر ہیں اوردشت بھی ہے دشوار
میں انجان ہوں یار، تیرا درد بنا ہے رہبر۔

شاہ لطیف یہاں پر ایک عورت کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب بات آتی ہے عشق کی تو شاہ لطیف سوہنی کے کردار کو بلند مقام پہ لے کر پیش کرتا ہے اور کہتا ہے
سب میں ایک ہی پریتم ہے۔ سب میں وہی حضور۔ ہر اک ہے منصور کس کس کو سولی دے گا۔

شاہ لطیف سماجی روایات کے بالکل برعکس سوہنی کے لئے کہتا ہے۔
سوہنی اس ساجن بن، ساری ناپاک
تجھ کہ دھو کر اجلا کردے، جا اس کے اوطاق،
کریں گے تجھ کو پاک، پئیں جو اجلا دودھ

یہاں پر شاۃ لطیف روایت یا رشتوں کے ساتھ نہیں انسانی جذبوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ دراصل شاہ لطیف خود جوہری بھی ہیں تو خود ہی پارس بھی ہیں۔ جب شاہ لطیف نے اؑن کرداروں کو چھوا تو یہ سونا بن گئے۔

عورت کو کہا جاتا ہے کہ وہ روتی رہتی ہے کیوں کہ وہ کمزورہے۔ لیکن شاہ لطیف تو عورت کو کچھ اور کہتے ہیں۔ تو جتنی باشعور ہوگی دکھ اور مشکلاتیں بھی تیرے ہی حصے میں آئیں گی۔ پھر دوسری طرف لطیف عورت کا حوصلہ بن جاتا ہے اور عورت کو مخاطب کرکے کہتا ہے، جس کا اندر (دل) ٹوٹا ہوا ہوگا پہاڑوں کوعبورنے کا حوصلہ بھی وہ ہی رکھے گی ”۔ لطیف کے نزدیک عشق بالاتر ہے اور جب لطیف عشق پر بولتے ہیں تو اس میں سے عورت کے وجود کو الگ نہیں کرتے۔

جن کا عشق اٹل ہے وہ تو، گھڑے بنا ہی تیریں۔ وہ لہروں پہ ٹہلیں، جن کے من میں پریت بسی ہو۔

جب لطیف سوہنی کے عزم کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے،
سؑنی تھی جب سب روحوں وہ آوازِالست، عہد کیا تھا میہر سے تب، پائی تھی اؑلفت
ڈوبنا تھی قسمت، کیسے ٹل سکتی تھی

اور بالکل لطیف جب سسئی کے لئے بھی اس طرح کا اظھار رکھتے ہیں!
جس کے پیر تھے ریشم جیسے، پربت میں وہ پیادہ،
قابلِ دید تھی آبلہ پائی، زخم ہوئے تھے تازہ
پھر بھی پربت روند رہی تھی، ہجرمیں من تھا ماندہ،
جس سی بندھن باندھا، کاش کہ اس سے مل آؤں۔

لطیف کے ہرانداز میں عشق نمایاں ہے، پھر بات وطن کی محبت کی ہویا محبوب کی ہو۔ لطیف خود طلبگار ہے اس لئے انہون نے فقط طلب کی معراج بنائی ہے منزل کی تو کوئی بات کی ہی نہیں ہے۔ لطیف عورت اور عشق ایک ہی لڑی میں پرو لئے گئے ہیں اس لئے تو لطیف خود سراپائے عشق ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).