وہ تو بس قندیل تھی!


\"haiderبزنس سکول کے اساتذہ ہر دم اچھی کیس اسٹڈیز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کوئی ایک ماہ قبل قلم تھاما تھا کہ مجھے قندیل بلوچ کی شکل میں ایک عمدہ کیس ہاتھ آیا دکھائی دے رہا تھا۔ جب اخلاقیات کے مبلغین اور ثناخوانِ تقدیس مشرق ایک بچی سے سخت خائف تھے،میں اسے  \’entrepreneurship\’ کی ایک اچھی مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا۔ قندیل کے لئے لکھا جانے والا کیس اسٹڈی مضمون آج اس کا نوحہ بن چکا ہے۔ جیسے غلام عبّاس کے افسانے ’کتبہ‘ میں کہانی کا کردار گھر کے باہر اپنے نام کی ایک اچھی سی تختی لگانے کے جتن کرتا رہتا ہے لیکن اچانک موت کے بعد وہی تختی اس کی قبر پہ کتبہ بن کر کام آجاتی ہے۔

وہ تو ابدی نیند سو گئی لیکن اس کے ذکر سے کئی افسانوں کے کرداروں میں جیسے یکلخت جان پڑ گئی ہو۔ فرانسیسی افسانہ نگار موپساں نے جیسے بہت سارے افسانے اس کے واسطے تحریر کیے تھے۔ اس کے ایک مشہور افسانے میں ایک مسافر بردار گاڑی میں دس مسافر شہر پر جرمن قبضے کے بعد فرار ہو رہے ہوتے ہیں۔ قافلے میں الزبت نامی ایک پیشہ ور خاتون بھی ہوتی ہے۔ جو سب سے بہت اچھی طرح پیش آتی ہے لیکن معززین اس سے کتراتے رہتے ہیں۔ راستے میں ایک چوکی پر فوجی  افسر گاڑی کو اس شرط پر آگے جانے کی اجازت دیتا ہے کہ الزبت اس کے کمرے میں چلی آئے۔ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار وه خاتون انکار کرتی ہے تو سب معززین اس کی خوشامد میں لگ جاتے ہیں۔ اور بالآخر سب کے اصرار پر وہ قربانی دے آتی ہے اور گاڑی کو جانے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن معززین بجائے شکریہ کے الزبت بیچاری کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آج منٹو زندہ ہوتا تو وہ یقیناََ قندیل پر اسی قسم کا افسانہ لکھ کر معاشرے کو اس کی برہنگی ضرور دکھاتا۔

 ایک اچھا entrepreneur تین چیزوں پر نظر رکھتا ہے۔ اول، مارکیٹ میں کس چیز یا خدمت کی طلب ہے۔ دوئم، کیا مارکیٹ میں اس کی ترسیل ہو رہی ہے۔ سوم، کیا مطلوبہ چیز فراہم کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ وہ سوچ سمجھ کے رسک لیتا ہے اور کامیابی پر خوب ترقی کرتا ہے۔ قندیل ایک ذہین لڑکی تھی۔ اور ہر جوان ہوتی لڑکی کی طرح اس کے لئے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ہمارے معاشرے میں ہر بالغ مرد پیاس کا صحرا ہے۔۔ لیکن منافقت کا لبادہ اوڑے سبھی کو غوث اور ولی دکھائی دینے کا خبط بھی ہے۔ ٹیکنالوجی نے قندیل جیسے entrepreneur کا کام آسان کردیا تھا۔ نہ اسے مغرور پروڈیوسروں کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت تھی نہ جگہ جگہ کی خاک چھاننے کی حاجت۔ سوشل میڈیا نے آجکل ہر کسی کو وہ طاقت عطاکردی ہے جو پہلے صرف انتہائی جتن کے بعد گنتی کے کچھ افرد کے نصیب میں آتی تھی۔ طلب و رسد کے جس بزنس میں وہ نام کمانا چاہتی تھی وہاں شہرت کامیابی کی کنجی ہے۔ اپنے کمرے میں بند اک چھوٹے سے کیمرے سے اس نے آغاز لیا اور ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔۔

نرگسیت، منافقت اور خود فریبی کے جال میں جکڑی اک اک لمحے کی تفریح کو ترستی قوم انٹرنیٹ پر دستیاب ہر قسم کی جسمانی ترغیبات کے پیچھے دیوانہ وار دوڑے جارہی تھی کہ عقب سے قندیل جیسی شوخ و شنگ حسینہ نے گھر سے آواز دی۔ خود ساختہ ولیوں اور باریش چہروں والے مصلحین نے استغفراللہ کے ورد کر کے رومال سے ٹپکتی رالوں کو صاف کیا۔ صبح و شام سوشل میڈیا پر لڑکیوں سے دوستی کے ہزار جتن کرنے والے پاکستانی نوجوانوں نے اسے اپنے وطن کے ناموس کے لئے خطرہ قرار دیا۔ مجرد آرٹ کے شوقین ناقدوں اور شوبز کی نامور ہستیوں نے اسے بیہودگی کہہ کے دھتکار دیا۔۔ جان و د دل کو عزیز رکھنے والے دانشوروں نے اس کی جانب نگاہ اٹھانے سے بھی گریز کیا لیکن وہ ایک کامیاب entrepreneur تھی لہٰذا وہ اپنا برانڈ بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوچکی تھی اور ہر چینل کی ضرورت بننے کے بعد اب اس کی نگاہیں انڈیا کی بڑی مارکیٹ پر جم گئی تھیں۔

\"qandeel\"وہ کسی ہنر میں یکتا نہیں تھی۔ نہ وہ پری وش تھی نہ ترنم کی ملکہ یا شہزادی۔ غربت کے سانچے میں پروان چڑھی وہ آداب و شائستگی کا پیکر بھی نہ تھی۔ بس صرف ایک بات تھی اس میں کہ وہ قندیل تھی۔ اس کے بناوٹی مگر معصومانہ انداز سے لگتا تھا کہ جیسے فیض احمد فیض کی نظم \’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے\’ کی وہ مجسم ترجمان بن چکی تھی۔۔ وہ سب کو اعلانیہ بتا رہی تھی کہ ستواں جسم اس کا اپنا ہے، وہ چاہے تو ہزار نقابوں میں اسے اوڑھ کر اہرام مصر کی ممی لگے یا رسوم و قیود سے آزاد ہو کر حشر برپا کرے، وہ خود اس کا فیصلہ کرے گی۔ غلام عباس کے افسانے \’اوور کوٹ \’ کے نوجوان کی مانند اس نے غربت اور شدید محرومیوں کے پھٹے پرانے بنیان کو ایک استعمال شدہ اوور کوٹ کے نیچے چھپا کر آسودہ حال طبقات کا فرد نظر آنے کا ڈھونگ رچانے کی جسارت کی تھی۔

اس کو کس نے قتل کیا، کیوں قتل کیا۔۔۔ یہ سوال اب شاید اہم نہیں۔ جس شہر کے باشندوں کے چہرے آڑے ترچھے ہوں وہاں آئینے بھلا کس کو بھا سکتے ہیں۔ وہ زندہ تھی تو معاشرے کو آئینہ دکھا رہی تھی۔ وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی تو سماجی ناہمواریوں، خاندانی رشتوں کی حقیقتوں اور معاشرے کے معززین کی خصلتوں کو نمایاں کر گئی۔ وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ مگر یہاں کون سدا زندہ رہا ہے۔ کون سدا زندہ بچے گا۔ اس کی روح کہیں سے سرگوشی میں کہہ رہی ہے کہ شعلہ تھی میں، جل بجھی ہوں اب کیا آوازیں دے رہے ہو۔ شاید وہ سچ کہہ رہی ہے۔ اس نے تھوڑا جیا مگر ڈٹ کے جیا۔ گیدڑوں اور گیدڑیوں کی سو سالہ زندگی سے شیرنی کا ایک دن بہتر ہے۔ وہ چاہتی تو طلب و رسد کا کام رازداری سے بھی کر سکتی تھی۔ یوں بھی شام میں یحییٰ خان کی محفلیں گرم کرکے دن میں ملی نغمے گا کر قومی ہیرو بننے کی روایت ہمارے ہاں کافی مضبوط ہے۔ مہینے بھر مجروں میں تھرتھریاں مچانے کے بعد ٹی وی کے پروگراموں میں عمرے اور حج کے روحانی فضائل پر بولنا بھی مستند فعل رہا ہے۔ کچھ نہیں تو نامی گرامی مولانا صاحبان سے ملاقات کرکے طہارت کا اعزازی سرٹیفکیٹ تو بآسانی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ مگر وہ ایسا کچھ بھی نہیں کرسکی کیونکہ وہ تو بس قندیل تھی!

ڈاکٹر حیدر شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر حیدر شاہ

مصنف برطانیہ کی ہارٹفورڈ شائر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے بانی ہیں۔ ان سے hashah9@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

haider-shah has 14 posts and counting.See all posts by haider-shah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments