حیاتیاتی تنوع میں زوال سے انسانی خوراک کی کمی کا خطرہ


تنوع

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسے پودے، جانور، مکھیاں اور کیڑے مکوڑے جو انسانی خوراک پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہ زوال کا شکار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ’اگر پودوں، جانوروں اور ننھی حیات کی ایسی اہم اقسام ختم ہو جاتی ہیں، تو اس سے ہماری خوراک کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی تنوع یا بائیو ڈائیورسٹی میں اس کمی کی وجوہات میں زمین کا بدلتا ہوا استعمال، آلودگی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں۔

سائنسدانوں کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا میں مختلف پودوں اور جانوروں کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے، لیکن یہ پودے، جانور اور کیڑے مکوڑے اتنی تیزی سے پیدا نہیں ہو رہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

یہ غذا دنیا کو بچا سکتی ہے۔۔۔

’پاکستان کے لیے یوکلپٹس سر پر لٹکتی تلوار سے کم نہیں ‘

ہرے بھرے ساگ صحت کے راگ

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، عالمی ادارۂ خوراک و زراعت (فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن) کی یہ رپورٹ اس لحاظ سے اپنی قسم کی پہلی رپورٹ ہے کہ اس میں اکانوے ممالک سے جمع کیے جانے والے اعداد وشمار استعمال کیے گئے ہیں۔

خوراک کے لیے کس قسم کا حیاتیاتی تنوع ضروری ہے؟

خوراک کے لیے ضروری بائیو ڈائیورسٹی سے مراد پودوں، جانوروں اور دیگر حیات میں تنوع ہے جس میں جنگلی حیات، پالتو جانور اور وہ پودے اور فصلیں شامل ہیں جو ہم کاشت کرتے ہیں۔ یہ تمام جانور اور پودے ہمیں عمومی خوراک، ایندھن اور ریشہ دار اشیاء یا فائبر فراہم کرتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ اس حیاتیاتی تنوع میں ایسی حیات بھی شامل ہے جو ہمارے کام آتی ہے، جیسے شہد کی مکھیاں، پودے کے بیج ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والے حشرات، کیڑے مکوڑے، سمندری گھاس، مونگے اور کائی یا فنگس۔ یہ تمام چیزیں نہ صرف زمین کو زرخیز رکھتی ہیں بلکہ ہوا اور پانی کو صاف بھی کرتی ہیں۔

یہ رپورٹ اتنی اہم کیوں ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ دراصل ہمیں دو پیغام دیتی ہے۔

اوّل یہ کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے خوراک کی جن اقسام پر انحصار کیا جا رہا ہے وہ بہت کم ہوتی جا رہی ہیں اور ان میں تنوع یا ورائٹی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

حیاتیاتی تنوع

پودوں یا فصلوں کی صرف نو اقسام ایسی ہیں جن سے 66 فیصد خوراک حاصل کی جا رہی ہے

مثلاً، پودوں یا فصلوں کی جن چھ ہزار اقسام کو خوراک کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، ان میں سے صرف نو اقسام ایسی ہیں جن سے 66 فیصد خوراک حاصل کی جا رہی ہے۔ اسی طرح دنیا میں تقریباً چالیس قسم کے مویشی اور پرندے پالے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے چند ہی ایسے ہیں جن کا گوشت، دودھ اور انڈے خوراک کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ خوراک اور زراعت میں مدد کرنے والی حیات کی بہت سی اقسام ایسی ہیں جن کے ختم ہو جانے کا خطرہ ہے یا وہ زوال کا شکار ہیں۔ مثلاً، جگلی حیات کی ایک ہزار اقسام ایسی ہیں جو اب اتنی فراوانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ان میں بے شمار پودے، مچھلیاں اور دودھ دینے والے جانور شامل ہیں۔

عالمی ادارۂ خوراک و زراعت کے ڈائریکٹر جنرل، ہوزے گریزیانو ڈی سلوا، کہتے ہیں کہ ’عالمی سطح پر خوراک میں استحکام، صحت افزاء اور توانائی والی خوراک، دہی علاقوں میں روزگار اور لوگوں میں سختی برداشت کرنے کی اہلیت کے لیے حیاتیاتی تنوع کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

ان کے بقول ’ ہمیں چاہیے کہ ہم بائیو ڈائیورسٹی کو ایسے طریقے سے استعمال کریں جو دیرپا ہو، تا کہ ہم موسمسیاتی تبدیلیوں کے چیلنج کا بہتر مقابلہ کر سکیں اور خوراک اس طرح پیدا کریں جس سے ہماری آب و ہوا کو نقصان نہ پہنچے۔

ہماری خوراک کو خطرہ کتنا ہے؟

حیاتیاتی تنوع

کیلیفورنیا میں پرندوں کی 250 اقسام کو پھلنے پھولنے کے لیے کھلی فضا مل رہی ہے۔

پورٹ کے مطابق حیاتیاتی تنوع میں کمی سے ہماری خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ سکتی ہے جس کی وجہ سے وبائی بیماریوں اور ٹڈی دل وغیرہ کے اچانک حملوں سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے رپورٹ نے خاص طور پر سنہ 1840 کے عشرے میں آئرلینڈ میں آلوؤں کے قحط کی مثال دی ہے جس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہو گئے تھے اور لاکھوں کو ہجرت کرنا پڑ گئی تھی۔

اگرچہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئرلینڈ جیسی صورتِ حال پیدا ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، تاہم رپورٹ میں ایسی کئی مثالیں دی گئی ہیں جہاں حیاتیاتی تنوع میں کمی لوگوں کی زندگی اور خوراک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

گیمبیا کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں جنگلی خوراک میں بہت زیادہ کمی ہو جانے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی خوراک کمی کو پوار کرنے کیے صنعتی پیمانے پر بنائے جانے والے کھانے کھا رہے ہیں۔

اسی طرح آئرلینڈ، ناروے، پولینڈ اور سوئٹزرلینڈ سمیت کئی ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں شہد کی بڑی مکھیوں میں کمی ہو گئی ہے، جبکہ عمان میں بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے جنگلی پودے، انجیر اور بیر پیدا ہونے کم ہو گئے ہیں کیونکہ وہ چرند پرند اور کیڑے مکوڑے جو ان چیزوں کے بیج ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے، اب ان کی تعداد میں کمی ہو چکی ہے۔

تنوع میں کمی کی وجہ کیا ہے؟

رپورٹ کے مطابق حیاتیاتی تنوع میں کمی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں اہم ترین یہ ہیں:

  • زمین اور پانی کے استعمال میں تبدیلی
  • آلودگی
  • زمین کی بساط سے زیادہ کاشتکاری کرنا
  • موسمیاتی تبدیلی
  • آبادی میں اضافہ اور شہروں کی طرف نقل مکانی

عالمی ادارۂ خوراک و زراعت کی اہلکار اور حالیہ رپورٹ کی رابطہ کار، جُولی بیلنگر کے بقول ’ہم نے دیکھا کہ سنہ 2010 اور 2015 کے درمیانی عرصے میں خط استوا اور اس کے زیریں علاقوں میں زراعت میں اضافے سے جگلات کا 40 فیصد حصہ ختم ہو چکا ہے۔‘

اس کے علاوہ رپورٹ کی تیاری میں حصہ لینے والے کئی ممالک کا کہنا ہے کہ ’حیاتیاتی تنوع میں کمی کی دیگر بڑی وجوہات میں حدت میں اضافہ، فضائی آلودگی اور زراعت میں استعمال ہونے والی غیر مناسب ادویات اور کھادوں کے علاوہ زمین سے زیادہ سے زیادہ فصلیں حاصل کرنا بھی شامل ہیں۔

مسئلے کا کوئی جامع حل ہے؟

جی ہاں، رپورٹ میں ایسی کئی چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنھیں ’تنوع دوست طریقے‘ کہا گیا ہے اور دنیا میں ان کے استعمال میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں شامل ممالک میں سے تقریباً 80 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ ان میں سے کچھ طریقوں پر عمل بھی کر رہے ہیں۔

مثلاً، ارجنٹائن میں گھروں میں تقریباً پانچ لاکھ 60 ہزار اور سکولوں اور دیہاتوں کی سطح پر 12 ہزار باغیچے بنائے گئے ہیں جن سے تقریباً 28 لاکھ افراد کو خوراک مہیا ہو رہی ہے۔

امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں کسان ماضی کے برعکس اب چاول کی فصل کاٹنے کے بعد بھوسے کو جلانے کی بجائے، کھیتوں کو بارش اور سیلابی نالوں سے سیراب ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ریاست میں ایک لاکھ 11 ہزار ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر پانی کھڑا رہتا ہے جس سے پرندوں کی 250 اقسام کو پھلنے پھولنے کے لیے کھلی فضا مل رہی ہے۔

اسی طرح گھانا میں کسانوں نے کھیتوں کے کنارے کنارے کساوا کاشت کرنا شروع کر دیا جس کی بدولت بڑی مقدار میں نیکٹر یا میٹھا رس پیدا ہوتا ہے، جس سے شہد کی مکھیوں اور دیگر حشرات کی تعداد اور فی ایکڑ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

عالمی ادارۂ خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ اس قسم کی حکمت عملی قابلِ ستائش ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں اس رفتار پر نہیں ہو رہیں جتنی ان کی ضرورت ہے۔

جُولی بیلنگر کہتی ہیں کہ ’ یہ بڑی مثبت بات ہے کہ کئی ممالک ایسے طریقے اپنا رہے ہیں جو دیرپا پیمانے پر دنیا کی خوراک کی ضرورت پورا کر سکتے ہیں، تاہم اکثر مقامات پر یہ نئے طریقے بہت چھوٹے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘

ہم اپنی زندگی میں کیا کر سکتے ہیں؟

دیگر ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی طرح، خوراک کی کمی سے نمٹنے کے لیے بھی اصل طاقت خود صارفین کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

عالمی ادارۂ خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ عام لوگ اس قسم کی خوراک کو فوقیت دے سکتے ہیں جو کسان خود بازار لا کر فروخت کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ ایسی اشیاء کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں جن کو پیدا کرنے کے لیے غیر مناسب طریقہ اپنایا گیا ہو۔

جولی بیلنگر کہتی ہیں کہ رپورٹ میں جو بات بڑے زور شور سے سامنے آئی ہے وہ ’شہری سائنسدانوں‘ کا کردار ہے، یعنی وہ لوگ جو رضا کارانہ طور پر نہ صرف حیاتیاتی تنوع پر نظر رکھتے ہیں بلکہ پودوں، جانوروں اور دیگر حیات کے تحظ کے لیے کام بھی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp