آئس کے نشے کے عادی افراد کے علاج کا مرکز: ’میری حالت اتنی خراب ہو جاتی کہ بہنیں بے بس ہوجاتیں‘


پہلے میں کسی سنٹر نہیں جانا چاہتا تھا، لیکن نشے کی وجہ سے میری نوکری بھی چلی گئی۔ پھر میرا ایک قریبی دوست مجھے اس سنٹر میں لے آیا تھا۔

پینتالیس سالہ نور محمد کی چار بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ وہ 12 سال تک نشے کی عادت میں مبتلا رہے، لیکن اب وہ پشاور میں واقع منشیات کے عادی افراد کے لیے قائم کیے جانے والے علاج و بحالی مرکز میں زیرِ علاج ہیں۔

نور محمد کا کہنا ہے کہ اگرچہ انھیں یہاں آئے کچھ ہی دن ہوئے ہیں، لیکن ان کی طبعیت میں کافی بدلاؤ آیا ہے۔ ’یہاں آکر اب اپنے آپ کو انسان سمجھنے لگا ہوں۔‘

خیبر پختونخوا کے سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ کی زیرِ نگرانی چلنے والے ’علاج و بحالی مرکز برائے آئس منشیات کے عادی افراد‘ نے جنوری 2019 میں ہی کام کرنا شروع کیا ہے۔

مرکز میں اس وقت 37 مریض زیر علاج ہیں، جبکہ یہاں سو مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ مرکز کے عملے میں مجموی طور پر دس لوگ اور تین ڈاکٹرز شامل ہیں۔ علاج و بحالی مرکز میں آئس سمیت دیگر منشیات جیسے کہ افیم، چرس، کوکین استعمال کرنے والے مریض بھی موجود ہیں۔

اس مرکز میں جوان اور بوڑھے، سب علاج کے لیے آتے ہیں۔

یہاں ہماری ملاقات 17 سالہ کامران سے بھی ہوئی۔ وہ کریسٹل میتھ یا ‘آئس’ کے نشے کے عادی ہو چکے تھے۔ ان کے مطابق ان کے بہنوئی انھیں اس مرکز میں لے کر آئے تھے۔

‘میں جس تندور پر روٹیاں لینے جاتا تھا اسی تندور کے مالک نے مجھے اس عذاب میں ڈالا۔ میں دو سال یہ نشہ استعمال کرتا رہا۔ میرے ماں، باپ اور بڑے بھائی کی وفات ہوچکی ہے جبکہ میری تین بہنیں حیات ہیں۔’

انھوں نے بتایا: ’میری حالت اکثر اتنی خراب ہو جاتی تھی کہ بہنیں بھی بے بس ہوجاتی تھیں اور پیسے دے کر مجھ سے کہا کرتیں کہ یہ لو پیسے! اب تمہیں قرار اور سکون نہیں تو ہم کہاں جائیں، کیا کریں۔‘

کرسٹل میتھ کیا ہے؟

اس نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسٹل میتھ یا ’آئس‘ کے نام سے مشہور یہ نشہ ‘میتھ ایمفٹامین’ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔

یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل کی صورت میں پاؤڈر کی شکل میں ہوتا ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے جسم میں اتارا جاتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرسٹل میتھ کے مسلسل استعمال سے خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح طاقت محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ کیفیت تھوڑی دیر ہی برقرار رہتی ہے۔

مرکز کے ری ہیبلیٹیشن افسر جواد خان نے اس ادارے کے قیام کی ضرورت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈرگ مافیا ہی نہیں، کیمسٹری سے واقف مقامی نوجوان بھی انٹرنیٹ کی مدد سے کچھ ادویات ملا کر آئس مقامی طور پر تیار کرنے لگے ہیں اور باآسانی دستیابی کی وجہ سے اس نشے کے عادی افراد میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘

اس مرکز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ’ڈی ٹاکسیفیکیشن‘ کا عمل بالکل مفت ہے۔ اس کے باعث ناصرف خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع سے لوگ یہاں آتے ہیں، بلکہ پنجاب اور سندھ کے مریض بھی یہاں علاج کے لیے یا تو خود آ رہے ہیں یا ان کے رشتے دار انھیں یہاں لا رہے ہیں۔

جواد خان کے مطابق مرکز میں زیرِ علاج مریضوں کا 45 دن کا کورس ہوتا ہے۔ پہلے 14 دن مختلف ادویات سے مریضوں کی ’ڈیٹاکسیفیکیشن‘ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔

’ہر وارڈ میں ہمارے پاس 12 مریض ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک کو ’میٹ‘ یا ’نگران‘ بنایا جاتا ہے جو باقی مریضوں پر رات کو نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط قائم رکھنے کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔‘

علاج و بحالی مرکز سے وابستہ ڈاکٹر اعظم کہتے ہیں کہ ’آئس کا رحجان نوجوان نسل اور خاص کر طلبا میں نسبتاً زیادہ ہے، جس کی بڑی وجہ تعلیمی دباؤ ہے۔‘

’آئس کے نشے کی وجہ سے مریض کو دو سے تین دن تک نیند نہیں آتی۔ یہاں مریضوں کے داخلے کے بعد پہلے 15 دن تک ان کے گھر والوں کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس کے بعد خاندان والے ملنے آسکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اعظم کے مطابق اس سنٹر میں خواتین مریضوں کے لیے بھی وارڈ موجود ہے لیکن ابھی تک کوئی خاتون مریض کو سنٹر نہیں لایا گیا۔

مرکز میں موجود سہولیات کے حوالے سے ڈاکٹر سیف اللہ نے بتایا کہ ’یہاں علاج کے ساتھ ساتھ مریضوں کو ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں، جیسا کہ بجلی اور لکڑی کا کام۔ منشیات کے عادی افراد کو صحت مند زندگی کی جانب واپس لانے کیلئے نہ صرف ادویات ضروری ہیں بلکہ کھیل کود کا رحجان بھی نہایت سود مند ہے، جس کی سہولت سنٹر میں موجود ہے۔‘

تصاویر: سبا رحمٰن


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp