چونی چھاپ مشاعرے کی روداد


اور ایک دوست نے یونہی سا سوال پوچھ لیا کہ آپ مشاعرے میں کیوں نہیں جاتے؟ میں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ بالکل نہیں جاتا مگر جن ادبی و شعری محفلوں میں میں جاتا ہوں، انہیں مشاعرہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اس پر ضرور سوالیہ نشان قائم ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں تو سبھی کرتے ہیں کہ اب مشاعرہ ایک انڈسٹری ہے یا اس میں خراب شاعر وغیرہ شامل ہوتے ہیں، آج میں ان سے بھی کچھ الگ مشاعرے کے ایسے دلچسپ اور نادر پہلوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

 جس سے ہمیں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ملے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے جب تھوڑا بہت کنگالی کا دور پھر سے چھایا تو اسی موقع پر ایک عزیز نے وشاکھا پٹنم کے کسی مشاعرے میں شرکت کی تجویز پیش کی۔ ان کی کرم فرمائی ہی تھی کہ مجھے اس عذاب سے مکمل طور پر بچانے کے لیے وہ خود بھی میرے ساتھ تشریف لے گئے۔ میرے لیے یہ زندگی میں ہوائی جہاز کا پہلا سفر تھا، اس سے پہلے صرف پر تولنے کا نام ہی سنا تھا، مگر یہ محاورہ ہے کیا ائیرپورٹ پر قریب قریب تین ساڑھے تین گھنٹے بیٹھ کر بات سمجھ میں آئی۔

کنوینر نے جو حرکتیں کیں اس کا بکھان تو کبھی اور کروں گا مگر اصل بات یہ کہ مشاعرے میں جس قسم کے شاعروں نے شرکت کی تھی، اسے دیکھ کر یہ محسوس ہورہا تھا کہ یہ کوئی حلیم سی دعوت سی جیسی چیز ہے، جہاں سکارف پہن کر، پھٹے بانسوں چلانے والی کچھ عورتیں اور ہاتھ ہاتھ ہلاکر ہوا میں کرتب دکھانے والے کچھ مرد حضرات جمع ہوگئے ہیں۔ میں نے سٹیج پر بیٹھنے سے تو ویسے ہی منع کردیا تھا، سامنے بیٹھا رہا، طارق فیضی برابر میں براجمان تھے۔

مشاعرہ چلتا رہا اور ہم کھلیاں کرتے رہے۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ حالات جب بہت خراب ہوجائیں تو ان پر صرف ہنسا جاسکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ ایک ایک شاعر پر کم از کم چالیس پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے تھے، جس قسم کا وہ ہال تھا، دو ڈھائی لاکھ سے کم اس کا کرایہ کیا رہا ہوگا۔ ایک بڑا سا پوسٹر پیچھے لگا تھا، جس پر سیاسی لیڈروں کی تصویریں یوں ٹھنسی اور پھنسی ہوئی تھیں، جیسے جمعہ کے روز نمازیوں کی صفیں ہوتیں ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ سے لگتا تھا کہ ’اردو شاعری‘ قسم کی اس مسکین سی چیز کو سننے کے لیے ابھی بھی کتنے لوگ امڈ پڑتے ہیں، بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر کھانے کی جستجو میں چلے آئے تھے۔

مشاعرے کی شروعات حمد سے ہوئی، یعنی خدا کی تعریف سے۔ کیا عجیب اتفاق ہے، جس شاعری کا بیشتر اچھا کلام الحاد اور کفر کی خوبصورت باتوں سے بھراپڑا ہے، اسی کو ہری ٹوپی پہنانے میں ہمارے ارباب مشاعرہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ بھائی، حمد نعت اور منقبت کے لیے کوئی اور میدان رکھیے، ایسے نورانی داڑھی والے کہیں اور جمع کرلیجیے، مسجدیں اور ان سے لگے ہوئے میدان اس کے لیے بہترین جگہ ہیں، مگر یہاں تو اس کا پیچھا چھوڑیے۔

 اور پھر یہ دیکھ کر تو میری ہنسی ہی چھوٹ گئی کہ جیسے ہی یہ کلام ترنم سے پڑھا جانے لگا، سٹیج اور سامعین میں بیٹھی ہوئی عورتوں نے دوپٹے اوڑھ کر کس لیے۔ کیا زبردست آڈمبر ہے، آدمی کو شرم بھی نہیں آتی کہ وہ خود کے ساتھ کیسا مذاق کررہا ہے۔ آپ شاعری سننے جمع ہوئے ہیں یا خدا کی تعریف۔ اب سوال یہ پوچھنا چاہیے کہ ’اردو‘ کو ہندوستان میں ’گنگا جمنی تہذیب کا دوسرا نام‘ ماننے والوں سے اگر یہ کہا جائے کہ بھائی اس مشاعرے سے پہلے ’گائتری منتر‘ یا پھر کوئی بھجن پڑھا جائے گا تب بھی کیا وہ ایسے ہی با ادب اور مطمئین نظر آئیں گے۔ آپ کو اگر جاننا ہے کہ اردو اصل میں مسلمانوں کی زبان کیوں کہلاتی ہے تو ایسے ہی مشاعروں کا رخ کیجیے۔

کلام ولام تو خیر جتنا خراب پڑھا جاسکتا ہے، ان مشاعروں میں پڑھا ہی جاتا ہے۔ علم کے حساب سے ان لوگوں کی صلاحیت بے حد معمولی ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے والے ایک بے حد سستے قسم کے تک بندیے کو ہندوستان میں ایک بڑا عزاز دیا گیا ہے۔ اب کوئی یہ سوال کرے کہ اس سوسائٹی میں جہاں جاہلوں کی ایسی قدر ہو، جو اخلاق کی موت سے لے کر تین طلاق جیسے اہم مسائل کو اپنی بھونڈی لفظیات میں گوندھ کر ایسی نظم بنادیتے ہوں جن پر جذبات سے بوجھل مسلمانوں کا ہجوم رقت زدہ ہوجائے تو آپ کو پوچھنا ہوگا کہ حکومت ایسے لوگوں کو کس چیز کے لیے اعزاز دے رہی ہے؟

مسلمانوں کو اور زیادہ کمیونل بنانے کے لیے؟ اردو کے ایک نہایت خراب شاعرہیں کوئی، انہوں نے کسی مشاعرے میں کوئی شعر پڑھا، جو مجھے یاد تو نہیں مگر فیس بک پر اس کے بہت سے پوسٹر دیکھے ہیں۔ موصوف نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’اگر آگ لگی تو سبھی کے گھر جلیں گے، یہاں صرف ہمارا ہی مکان تو نہیں ہے۔ ‘ اور اس شعر پر لوگ تالیاں بجاتے ہیں، فیس بک پر ان کو شیئر کرنے اور انہیں لائک کرنے والوں کی تعداد ہزاروں، لاکھوں میں ہے تو کیا ان سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ بھائی!

 یہ ’ہمارا مکان‘ کیا چیز ہے۔ کیا آپ اس سے کسی خاص مذہب کے لوگوں کو اس بات پر اطمینان نہیں دلارہے ہیں کہ پریشان مت ہو، تباہی ہوئی توتمہارے ساتھ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے گھر بھی جلیں گے اور وہ بھی برباد ہوں گے۔ اس فکر میں اور اس فکر میں کتنا فرق ہے، جو کہتی ہے کہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو مارنے کے لیے اگر خود کو بھی جان سے جانا پڑے تو کوئی برائی نہیں۔

میں مانتا ہوں کہ ٹھیک یہی حالت ’ویررس کویتا‘ کی ہندی میں ہورکھی ہے۔ ’ویر رس‘ نامی اس صنف کے لکھنے والے دن رات پاکستان کی تباہی اور بربادی کی بات کرتے ہیں۔ اور بدلے میں واہ واہی لوٹتے ہیں۔ اہم بات یہ نہیں ہے کہ آپ کسی خاص ملک کی بربادی کی بات کررہے ہیں۔ اہم اور خطرناک ترین بات یہ ہے کہ آپ بربادی کی بات کررہے ہیں، موت کی بات کررہے ہیں۔ اس طرح کے لوگ یہ فرق نہیں سمجھتے کہ کوئی پورا ملک کبھی ’دہشت گرد‘ نہیں ہوتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2