ٹرمپ: ’شمالی کوریا جوہری ہتھیار ترک کر کے معاشی طاقت بن سکتا ہے‘


ڈانلڈ ٹرمپ کم جانگ ان

دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اہیمت کے حامل پہلے مذاکرات گذشتہ سال جون میں سنگاپور کے شہر میں ہوئے تھے۔ اس سے پہلے دونوں رہنما صرف ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے تھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ترک کر دے تو وہ دنیا کی ‘عظیم معاشی طاقت’ بن سکتا ہے۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ شمالی کوریا کے ترقی کرنے کے امکانات دیگر ممالک سے زیادہ ہیں۔ جبکہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے چند گھنٹے قبل امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا تھا کہ شمالی کوریا ابھی بھی ایک جوہری خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے۔

امریکہ اکسانے والے اقدام نہ کرے کیونکہ ہم جواب میں جوہری حملوں کے لیے تیار ہیں: شمالی کوریا

’شمالی کوریا امریکہ کے لیے حقیقت میں ایک بڑا جوہری خطرہ‘

شمالی کوریا کا تنازع ہے کیا؟

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ‘ہم دونوں (رہنما) سنگاپور میں ہونے والے پہلے سربراہی اجلاس میں ہونے والی پیشرفت کے تسلسل کی توقع کر رہے ہیں۔‘

اتوار کو امریکی گورنروں کی ایک تقریب میں صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ انھوں نے کم جانگ ان کے ساتھ ‘بہت بہت اچھے’ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کو شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کسی کو جلدی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں بس (جوہری ہتھیاروں کا) تجربہ نہیں چاہتا۔ جب تک کوئی تجربہ نہیں ہو رہا ہم خوش ہیں۔’

امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیاں بات چیت کا دوسرا مرحلہ اس بدھ اور جمعرات کو ویتنام میں ہونے جا رہا ہے۔ ان مزاکرات میں شرکت کے لیے امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی پہنچیں گے۔

کم جانگ ان بذریعہ ٹرین پیونگیانگ سے ہنوئی کے لیے روانہ ہوئے تھے اور گذشتہ سنیچر کو وہ ویتنام کی سرحد کے ساتھ چین کے شہر ڈینگ ڈانگ تک پہنچے تھے۔

ان کے ہمراہ ان کی بہن کم یو جونگ اور سابق جرنل کم یونگ چول ہیں۔ کم یو جونگ شمالی کوریا کی مزاکراتی ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کم جانگ ان ویتنام کا ‘خیر سگالی’ کا دورہ کریں گے۔

آخری مزاکرات میں کیا حاصل ہوا؟

دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی اہیمت کے حامل پہلے مزاکرات گذشتہ سال جون میں سنگاپور کے شہر میں ہوئے تھے۔ اس سے پہلے دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف صرف بیان بازی کرتے تھے۔

لیکن اس دوران طے پانے والے معاہدے مبہم تھے اور ان میں بیان کیے عدم جوہری پھیلاؤ کے مقصد پر کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

ڈانلڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے ساتھ ہونے والی جنگی مشقوں میں کمی کا وعدہ کیا تھا، شمالی کوریا کو ان مشقوں پر شدید تشویش تھی۔ لیکن بہت سارے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس عمل کے بدلے میں کیا ملا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ گرمیوں میں شمالی کوریا کی سرحد کے قریب سے راکٹوں کی اہم تنصیبات کو ہٹانے کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کو روکنے یا میزائلوں کے مراکز کو بند کرنے کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

تاہم کچھ دنوں سے حکومتوں کے نچلی سطح پر رابطے ہو رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہنوئی اعلامیہ میں پہلے سے زیادہ ٹھوس فیصلے سامنے آ سکتے ہیں۔

ہنوئی مزاکرات سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

اس دفعہ دونوں رہنماؤں کو اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ ان مزاکرات سے بہت توقعات وابسطہ ہیں اس لیے انھیں ٹھوس پیشرفت ظاہر کرنا ہو گی یا کم از کم مستقبل کا لائحہ عمل ضرور پیش کرنا ہوگا۔

تجزیہ نگار بہت غور سے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دونوں فریق ان مزاکرات میں ایک دوسرے کو کتنی رعایت دیتے ہیں۔

امریکہ کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ کسی بھی پابندی کے خاتمے سے پہلے شمالی کوریا کو یکطرفہ طور پر اپنے جوہری ہتھیار ختم کرنے ہوں گے۔

لیکن کچھ دن پہلے ہی صدر ٹرمپ نے یہ بات کہی ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں ‘کسی جلدی میں نہیں۔’

ایک امکان یہ ہے کہ کوریا کی جنگ کے ختم ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے۔ یاد رہے کہ سن 1953 میں جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ دونوں فریقوں کے درمیان عارضی امن معاہدہ ہوا تھا۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ شمالی کوریا سے یہ مطالبہ کرے گا کہ وہ ‘یونگبیون’ جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے مرکز کو پابندیوں کی نرمی کے بدلے بند کر دے۔

مزاکرات ویتنام میں کیوں ہو رہے ہیں؟

بہت ساری وجوہات کی وجہ سے ویتنام ان مزاکرات کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔ امریکہ کا سابق دشمن ہونے کے باوجود ویتنام کے امریکہ اور شمالی کوریا دونوں کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ امریکہ اس تاریخی حقیقت کو مثال کے طور پر استعمال کر سکتا ہے کہ دو ممالک جن کے درمیان تاریخی تلخیاں ہوں وہ اپنے ماضی کو ایک طرف رکھ کر مل کے کام کر سکتے ہیں۔

نظریاتی طور پر ویتنام اور شمالی کوریا دونوں کمیونسٹ ملک ہیں لیکن ویتنام نے جلدی ترقی کی اور وہ آج ایشیا کی ابھرتی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ ویتنام میں شمالی کوریا کی طرح ایک ہی پارٹی بر سر اقتدار ہے اور اس کے پاس مکمل طاقت ہے۔

امریکہ، ویتنام اور شمالی کوریا کی نظریاتی مماثلت کو استعمال کرتے ہوئے شمالی کوریا کو یہ راستہ دکھا سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے دروازے کھولے گا تو وہ ویتنام کی طرح ترقی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp