خانوزئی اور پھولوں کے جنازے


بلاشبہ انسانی زندگی مختلف سانحات اورالمیوں سے عبارت ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ روئے زمیں پر ہر ذی روح کو فنا ہوناہے اور صرف خداوندباری تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہنی ہے ”کُل مَن علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک َذُوالجلالِ والاکرام (القرآن) ۔ ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ پَل پَل بدلتی انسانی زندگی میں تقدیر کے رول کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن ان لوگوں کی عقل پرتو ماتم ہی کیا جاسکتاہے جو ہرناخوشگوار واقعے کو صرف مقدر کی کارستانی کہہ کر انسان کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ اگر ان قابل رحم انسانوں کی بات کو مان لیاجائے تو پھر اس کا یہ مطلب ہوتاہے کہ انسان ایک مجبورِ محض مخلوق ہے اور نظام زندگی میں ہونے والی خرابیوں کے ادنیٰ درجے کی ذمہ داری بھی اس پر عائد نہیں ہوتی ہے۔

اس گُتھی کوہماری شریعت نے بڑے احسن طریقے سے سلجھا دی ہے کہ ”انسان اتناطاقتور بھی نہیں ہے کہ اسے مختار ِ کل سمجھاجائے ہے اور مکمل طورپر مجبور اور درماندہ بھی نہیں ہے۔ جہاں تک اس کا بس چلتاہوتووہ ہرقسم کی برائی اورخرابی سے اپنے آپ کوبچانے کا وہ مکلف اور پابندہے، مگراس سے آگے کے معاملات کا نہیں۔ کراچی میں شب جمعہ اور روزِجمعہ کورونما ہونے والے جان لیوا واقعات کو بھی اگر ہم صرف تقدیر اور قسمت کا کرتادھرتاسمجھیں تو پھر کسی سے شکوہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ انیس جنوری کوساہیوال میں پیش آنے والے سانحے کی طرح خانوزئی اور پشین (منزری ) کے پشتون خاندانوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات بھی اُن انسان نما درندوں کی کارستانی ہے جن کے ہاں انسانی جاں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ جو عمر بھر تو انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

کیا ان واقعات کو بھی محض تقدیر کالکھا قرار دے کر اسے بھولنا چاہیے یا ہمای ریاست کو دوٹوک فیصلہ کرنا چاہیے کہ بائیس کروڑ انسانوں کے اس گھر میں انسانوں کی بھی کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ پہلا واقعہ ان غافل انسانوں کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے پیش آیا جو ہروقت صرف پیسہ جمع کرنے کامکروہ ترین دھندے میں مبتلارہتے ہیں۔ جواپنے ریستورانوں پر آنے والوں کوکتوں اورگدھوں کا مردارگوشت بھی کھلاتے ہیں لیکن ہماری غافل حکومتوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

کراچی میں شب جمعہ کو پیش آنے والے اس سانحے میں ایک ہی خاندان کے پانچ پھول سے خوبصورت بچے پَل پھر میں خزان رسید ہوئے جن کی عمریں ڈیڑھ سال سے نوسال کے درمیان تھیں۔ ڈیڑھ سالہ عبدالعلی، چارسالہ عبدالعزیز، سات سالہ توحید، چھ سالہ عالیہ اورنوسالہ سلویٰ ممتازسماجی کارکن فیصل زمان اخوندزادہ کے جگر گوشے تھے۔ فیصل زمان اخوندزادہ کا تعلق پشین کے خانوزئی علاقے سے ہیں جورشتے میں بیسویں صدی کی ممتاز عبقری شخصیت اور پشتوشاعر علامہ عبدالعلی اخوندزادہ کے پوتے لگتے ہیں۔

فیصل زمان گزشتہ روز اپنے پانچ پھولوں، اہلیہ اور ہمشیرہ کو کوئٹہ سے لے کرکراچی روانہ ہوگئے۔ راستے میں خضدار آیا تووہاں پر مقیم ایک دوست کے ہاں کھانا بھی کھایا۔ رات کو روشنیوں کے شہرکراچی پہنچے تو صدر میں وفاقی گیسٹ ہاوس قصرناز میں قیام کیا۔ پاسپورٹ آفس سے متصل نوبہار ہوٹل سے فیملی کے لئے بریانی منگوائی۔ نوبہار ریسٹورنٹ کی یہ بریانی بظاہرتو ایک مرغوب ڈش تھی لیکن حقیقت میں یہ زندگی کو آڑے ہاتھوں لینے والے زہر اور زقوم سے کم نہیں تھا۔ کھانے کے بعدآدھی رات کو فیصل کی اہلیہ اور ہمشیرہ کی حالت غیر ہوگئی۔ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا۔ واپسی پر صبح جب انہوں نے اپنی قیام گاہ کارخ کیا اور بچوں کو جگانا چاہا تو پانچوں مرجھائے ہوئے پھولوں کی مانند بے ہوش پائے۔ کتنے فگار اور شکستہ دلی سے اس بدقسمت باپ نے اپنے بچوں کو ہسپتال منتقل کیاہوگا۔ اور پھر ہسپتال میں کچھ دیربعد ڈاکٹروں نے انہیں یہ نامبارک اطلاع دی ہوگی کہ ”جناب! آپ کے لال سب کے سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں“۔ انسانی غفلت کی بھینٹ چڑھنے والے ان معصوم بچوں کو کیامعلوم تھا کہ ہوٹل ”نوبہار“ کی بریانی ان کی ہری زندگیوں کے لئے ایک جان لیوا خزان ثابت ہوگا۔

یہ سطور لکھتے وقت فیصل زمان کی ہمشیرہ کے انتقال کی خبر بھی آگئی ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ فیصل زمان کے ننھے منھے بچوں کی میتیں ہفتہ کی رات ایئرایمبولینس کے ذریعے کوئٹہ پہنچائی گئیں۔ ہفتہ کو گیارہ بجے خانوزئی میں ان کے آبائی قبرستان میں ان کی تدفین بھی ہوگئی۔ ایسا وقت شاید آجائے گاجب فیصل خاندان ان پھولوں کو بھول جائیں گے لیکن اپنے ساتھ ہونے والے اس پراسرار حادثے کو وہ کبھی بھی بھول نہیں پائیں گے۔ وہ پوری عمراس سوال کا جواب کی تلاش کرتا رہے گاکہ کیوں اور کس کی ایما پر ان کے ساتھ یہ قیامت خیز حادثہ پیش آیا، جب تک اس کی صاف اور شفاف تحقیقات نہیں ہوتے۔ اور حال یہ ہے کہ یہاں صاف اور شفاف تحقیقات کی آس لگانا ہر وقت ایک خواب اورخیال رہاہے۔

دوسرا حادثہ بھی اسی کراچی ہی کے مرکزی علاقے ناگن چورنگی میں جمعہ کی نماز کے بعد پیش آیا۔ جس میں ضلع پشین ہی کے علاقے منزرئی سے تعلق رکھنے والے دونوجوانوں کو نامعلوم مسلح افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان بے گناہ لوگوں کی خون آلود تصاویر دیکھ کر ہر ذہن میں ایک بار پھر مختلف سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ کراچی میں لوٹنے آنے والا امن آخر کن قوتوں کو کھٹک رہاہے اورکیاشہرقائدمیں ایک مرتبہ پھرخون کی ہولی کھیلنا شروع ہواچاہتاہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).