کیا سرعام سزا دینے سے جرائم کم ہو سکتے ہیں؟


جیسا معاشرہ ہوتا ہے ویسے ہی جرائم ہوتے ہیں۔ بقول والٹئیر
”ایک معاشرہ اپنے حِصے کا مجرم پا لیتا ہے۔ “

”A society gets a criminal it deserves۔ “
Voltaire۔

اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ جِس بھی طرح کے جرائم ہمارے معاشرے میں ہوتے ہیں کہیں ہم ایسے ہی جرائم اور ایسے ہی مجرموں کے حقدار تو نہیں کیونکہ مجرم کہیں اور سے نہیں بلکہ معاشرے سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی گھٹن، نا اِنصافی، عدم مساوات و دیگر ایسی خرابیوں سے جنم لیتے ہیں۔ آپ اِن خرابیوں کو کم کرلیں جرائم میں خاتمہ نہ سہی کمی ضرور آئے گی۔

ایک سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ معاشرے اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں جہاں انسان بستے ہیں وہاں جرائم ہوتے ہیں۔ جرم کی وجوہات اور مجرم کی نفسیات آج کی ماڈرن نفسیات کے باقاعدہ موضوع ہیں۔ ہم اِن کو کِسی ایک پوسٹ میں تفصیلاً مبحث نہیں کرسکتے بہرحال اِتنا سمجھ لیں کہ شدید سخت سزائیں یا ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی احمقانہ سوچ کہ سرِ عام سزائیں دِی جائیں، پھانسیاں لگائی جائیں اِس کا حل نہیں اور نہ ہی ایسے مجرم سدھر سکتے ہیں یا جرائم کم ہوسکتے ہیں۔ اکثر آپ نے پولیس کی گاڑیوں وغیرہ پر لِکھا دیکھا ہوگا جرم سے نفرت ہے مجرم سے نہیں۔

ہمارے ہاں ایسا نہیں ہمیں سب سے پہلے مجرم سے نفرت ہوتی ہے جرم کی وجہ، مجرم کی نفسیاتی گرہیں وغیرہ اِن سب سے ہمارا کیا تعلق؟ جذباتی ہم اِتنے زیادہ ہیں کہ ہمیں ہر مسئلے کا حل تشدد میں نظر آتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ عشروں بلکہ نسلوں سے مغربی معاشروں میں رہنے کے باوجود وہاں سے رواداری، برداشت یا تحمل نہیں سیکھ پاتے؟ اِس کی بنیادی وجہ ہمارے اندر یا شاید ہماری گھٹی میں موجود ضِد ہے کہ نہیں جو ہم نے پڑھ لِیا وہی ٹھیک ہے، نئی باتیں ہم سیکھتے نہیں، پرانی غلط پڑھی ہوئی باتوں کو اَن لَرن کرنا ہمیں آتا نہیں۔ ایسے میں بہتری کیسے اور کہاں سے آئے گی؟

ہمارے ہاں زینب ریپ اور مرڈر کیس ہوا ہم نے پورا زور اس کے مجرم کی پھانسی پر لگادِیا۔ مجرم عمران علی کو تو اس کے کیے کی سزا مِل گئی لیکن کیا زینب جیسے کیسز آئے دِن نہیں ہورہے؟ کیا ہم نے بحیثیت ایک ”ذمہ دار“ معاشرہ سوچا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور تسلسل سے کیوں ہورہا ہے؟ یہ سوچنا ہم کب شروع کریں گے؟

میں نے دو روز پہلے سرِعام سزاؤں کے متعلق پوسٹ لگا کر ایک چھوٹا سا جائزہ لِیا تھا کہ ہمارے ہاں لوگوں کا عوامی جگہوں پر سزاؤں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اکثریت عوامی سزاؤں کی حامی پائی گئی بلکہ وہاں اس پوسٹ پر کئی میرے دوست جو لندن، سویڈن، امریکہ میں رہائش پذیر ہیں ان کا یہی ماننا تھا کہ پبلک پنشمینٹ یا پبلک ایگزیکیوشن ہی بہترین عِلاج ہے۔ میں ان کو غلط بالکل نہیں کہوں گا کیونکہ وہ اچھے ذہن اور اچھی فطرت کے لوگ ہیں بس انھوں نے اپنے معاشرے سے کچھ نیا نہیں سیکھا۔ ذہنی طور پر وہ ابھی بھی پنجاب یا سندھ کے کِسی چھوٹے سے شہر میں موجود ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ کرمنالوجی اینڈ کرمنل بے ہیوئیر ایک باقاعدہ سبجیکٹ ہے جِس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جرم ہوا کیوں ہے اور مجرم کی نفسیات، ہسٹری یا بیک گراؤنڈ کیا ہے اِس کے بغیر آپ بھلے روزانہ سو پھانسیاں جمعے کی نماز کے بعد دے دیں حالات بہتر نہیں ہوں گے کیونکہ آپ وجوہات کا تدارک کرنا تو دور ان کی جانب دیکھنا بھی نہیں چاہ رہے تو بہتری کیا خاک آئے گی؟

ابھی مجھے معلوم ہے کہ یہاں تک پڑھتے پڑھتے آپ کے ذہن میں یہ بات کھد بد مچا رہی ہوگی کہ ”لوجی اتنے سارے جرم تو ہوتے ہیں مغربی معاشروں میں“ تو اِس ضمن میں گزارش ہے کہ جرائم کا مکمل خاتمہ تو معاشروں کے اور انسانوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ہوسکے گا جب تک انسان ہیں تب تک معاشرے ہیں اور جب تک معاشرے ہیں تب تک جرائم اور مجرم بھی ہیں۔ ہم بس اِن کی کِسی حد تک روک تھام کرسکتے ہیں اور اِن کی شِدت میں کمی لاسکتے ہیں مکمل خاتمہ ناممکن ہے۔

ہم ابتدائی طور پر اپنے ملک میں ایسے جدید کورسز کروانے کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ ہر پولیس سٹیشن میں تفتیشی افسران کے ساتھ ایسے نفسیاتی ماہر کی ضرورت ہے جو ہر بڑے اور قابلِ جرم کی وجوہات اور نفسیات پر اپنی ڈائری مرتب کرسکے۔ ایسا ہونا کبھی نہیں لیکن سوچنے اور خواہش میں ہرج ہی کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).