تمہیں اندازہ ہی نہیں جنگیں کیا کرتی ہیں


پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث دونوں ا طراف بعض عناصر جنگ کا طبل بجا رہے ہیں۔اور اس جنگی جنون کا اظہار الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زیادہ ہو رہا ہے۔دونوں ملکوں کی عوام ، افواج اور حکومتوں کو کاروائیوں پر سراہا اور جوابی وار کے لیے اُکسایا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہِ ان لوگوں نے نہ تو کبھی جنگ اور اس سے ہونے والی تباہ کاریاں دیکھی ہیں۔ اور نہ یہ لوگ اس بات کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جنگ ہوتی کیا ہے۔ جنگ ایک نہایت ہی بھیانک بَلا کا نام ہے۔جو ایک مرتبہ شروع ہو جائے تو اس سے چھٹکارا مشکل ہو جاتا ہے۔
جان چھوٹ بھی جائے تو یہ بَلا اپنے پیچھے یتیموں، بیواوٗں اور معذوروں کے لشکر چھوڑ جاتی ہے۔حالتِ امن میں جوان اپنے والدین کو قبر میں اتارتے ہیں۔ جبکہ جنگ بوڑھے والدین کواپنے نحیف ہاتھوں سے جوان بیٹوں کی میتیں اٹھوانے پر مجبور کرتی ہے۔ جنگیں قوموں کو ترقی کی شاہراہوں پر صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔اور غربت اور مفلسی جنگ زدہ معاشروں کا خاصہ بن جاتی ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر کسی معاشرہ پر جنگ کے اثرات دیکھنے کا اتفاق افغانستان میں ہوا۔اس تباہی کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں ۔یہ ایسے انمِٹ نقوش ہیں جو افغان قوم شاید صدیوں تک نہ بھلا سکے ۔میری دُعا ہے کہ اللہ پاک افغان قوم کو جنگ اور اس کے خوفناک نتائج سے نجات دلائے ۔
kabul 1995
مجھے پہلی مرتبہ 1992میں افغانستان جانے کا اتفاق ہوا۔ دارالحکومت کابل جانے والی سڑک پر سفر شروع کیا۔ توسب سے پہلا دھچکہ گاڑی کے دھچکوں سے لگا۔ سڑک کے نام پر مٹی کا ایک ٹریک تھا جس میں جگہ جگہ بڑے چھوٹے بے شمار گڑھے تھے۔خراب سڑک کے باعث گاڑی کے ٹائر ایک آدھ سیکنڈ کے لیے زمین کو چھوتے اور پھر اگلے دو تین سیکنڈ کے لیے ہوا میں مُعلّق رہتے۔
میرا سر کئی مرتبہ گاڑی کی چھت سے ٹکرایا۔ بمباریوں اور ٹینکوں اور جنگی گاڑیوں کی آمدورفت اور کئی برس کی جنگ کی وجہ سے مرمّت نہ ہونے کے باعث سڑک ختم ہو چکی تھی۔ پاکستان اور بھارت میں موٹر ویز اور دوسری بلیک ٹاپ شاہراہیں استعمال کرنے والے اُس وقت کی افغانستان کی سڑکوں پر سفر کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے ۔
دوسری مصیبت سڑک کے دونوں اطراف زمین میں دفن لینڈ مائنز تھیں۔ اس زیرِزمین موت سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ ڈرائیور گاڑی آگے جانے والی گاڑیوں کے ٹائروں کے نشانات پر چلائے۔ہماری گاڑی میں خوف کی کیفیت طاری تھی۔ اور تمام مسافر کھڑکیوں سے سر نکالے یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کہیں گاڑی سڑک سے نیچے نہ اتر جائے۔
گاڑی تھوڑا سا بھی سڑک کی کسی ایک طرف لہراتی تو مسافروں کی چیخیں نکل جاتیں۔ راستے میں سڑک کنارے لینڈ مائنز کا نشانہ بننے والی کئی جلی ہوئی گاڑیوں کے ڈھانچے صورتِ حال کو مزید خوفناک بنا رہے تھے۔مسافر گاڑیوں کے علاوہ جگہ جگہ کئی جلے ہوئے ٹینک اور دوسری جنگی گاڑیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑے چھوٹے پتھروں پر ان مقامات پر زندگی کی بازی ہارنے والے کمانڈروں اور جنگجووٗں کے نام درج تھے۔
Afghanistan, March  2005

بعض جگہوں پر ایسے مقامات کے گرد پتھر رکھ کر دیواریں کھڑی کر دی گئیں تھیں۔اور چند ایک رنگ برنگے پھریرے لگا کر ان کو زیارت کی شکل دے دی گئی تھی۔ جہاں خواتین کو دُعا کرتے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔

سروبی شہر سے چند کلومیٹر پہلے ایک مقام پر سنسان سڑک کنارے چند لوگوں کو کھڑے دیکھا۔ قریب پہنچنے پر ایک انسانی جسم نظر آیا۔ ڈر اور خوف کے باوجود ہم سب صحافیوں کی پروفیشنل حس جاگ اٹھی۔ گاڑی روکی گئی۔اور ہم لوگ اتر کر اس طرف بڑھے۔دیکھا کہ درمیانی عمر کا شخص مرا پڑا ہے۔
اسے پیٹ میں گولی ماری گئی تھی۔نعش غالباََدو تین دن پرانی تھی ۔ اور اسی وجہ سے کافی پھُول چکی تھی۔ اور اس سے شدید تعفن اٹھ رہا تھا۔ وہاں سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ تصویریں اور ویڈیوز بنا کر ہم آگے بڑھ گئے۔
دوپہر کے قریب ہم سروبی پہنچے۔ جہاں سڑک کنارے ایک خستہ حال ڈھابے پر رُکے۔وہاں لوگ تو کافی تھے۔ لیکن ان کے چہروں پر افسردگی اور غیر یقینی جیسے تاثرات تھے۔ بہت کم لوگ ہنس رہے تھے۔ حتیٰ کہ چہروں پر مسکراہٹیں بھی ندارد۔ اکثر مردوں اور حتیٰ کہ جوان لڑکوں کے کندھوں پر کلاشنکوفیں لٹک رہی تھی۔چند ایک بچّے اگرچہ کھیل کود تو رہے تھے۔ لیکن ان کی قلقاریاں کم ہی سنائی دیتی تھیں۔ان کی شرارتوں میں مستی اور تیزی دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔
میں نیم تاریک ڈھابے کے کونے میں پڑی ایک ٹوٹی پھوٹی بنچ کی طرف بڑھا۔ اس بنچ پر ایک بزرگ پہلے سے بیٹھے تھے۔ میں سلام کر کے ان کے قریب بیٹھ گیا۔ بزرگ کی عمر تقریباََ پچاس سال تھی۔جُھریوں سے بھرے چہرہ جذبات سے عاری تھا۔میں نے بزرگ سے گفتگو کا آغاز کیا۔ باتیں ہوئیں تو جنگ کا ذکرآیا۔
Mosul – Iraq
میں نے افغانستان میں جنگ اور تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ بزرگ نے پوچھا تم جانتے ہو جنگ ہوتی کیا ہے۔ اور خود ہی بولے تم نہیں جانتے۔تم میرے ملک میں گھروں، عمارتوں اور سڑکوں کی تباہی پر افسوس کر رہے ہو۔ یہ تو جنگ کا بہت معمولی سا نقصان ہے۔
میں نے پوچھا جنگ مزید کیا نقصان کرتی ہے۔ بزرگ بولے ۔جنگ تو انسانوں کواندر سے توڑ دیتی ہے۔انسانوں کے جذبات ختم کر دیتی ہے۔ میں نے وضاحت طلب نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔وہ بولے جب ایک بوڑھا باپ جوان بیٹے کو قبر میں اتار تا ہے۔ تو وہ صرف ایک نعش نہیں دفناتا۔ بلکہ اپنے جذبات ،احساسات اوراُمنگیں بھی زمین بوس کردیتا ہے۔اور میں نے تو دو دو جوان بیٹوں کی میتیں دیکھی ہیں۔
بزرگ نے بتایا کہ پہلے بیٹے کی موت پر وہ کچھ جذباتی ہو رہا تھا۔لیکن دوسرے جوان سپوت کو دفناتے وقت بالکل بھی کچھ محسوس نہیں ہوا۔ اس نے کہا کہ اسے نہیں فکر کہ اس کے گھر والے رات کو کیا کھائیں گے۔ اس کی تین بیٹیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ “تمھیں اندازہ ہی نہیں جنگیں کیا کرتی ہیں” یہ کہہ کر بزرگ اٹھے اور ڈھابے کے بیرونی دروازہ کی طرف بڑھ گئے۔ اور میں ساکت بیٹھا انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).