جنگی ماحول میں کپتان کا مودی کو امن کا پیغام


مہاراجہ اشوک اعظم موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ تھا۔ بادشاہ بننے کے آٹھویں سال اس نے ہندوستان کی مشرقی سرحدوں پر واقع ریاست کلنگا کو خوں ریز جنگ کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ جنگ تاریخ انسانی کی چند خوں ریز، ہولناک اور تباہ کن جنگوں میں سے ایک ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ میں ایک لاکھ انسان تہ تیغ ہوئے اور ا تنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے۔ فتح کے بعد جب مہاراجہ اشوک نے میدان جنگ میں کٹی پھٹی، بے گورو کفن لاشوں کو دیکھا اور زخمیوں کی دردناک چیخ و پکار اور درد انگیز سسکیوں کو سنا تو خوف و ترحم کے ملے جلے جذبات اس پر اتنا غالب آئے کہ اس نے تلوار پھینک کر آئندہ ہر قسم کی فوجی کارروائیوں سے تائب ہو کر امن و محبت کا مذہب بدھ مت کو مذہبی فلسفے کے طور پر اپنایا اور ساری زندگی عدم تشدد پر عمل پیرا رہا۔

جنگ و جدل اور مبارزت آرائی میں کوئی تو قیامت خیز بات تھی جس کو ذہن میں رکھتے ہوئے خلیفہء دوم حضرت عمر فاروق نے عجم کے ساتھ معرکہ آرائی سے قبل نہایت حسرت سے فرمایا تھا کہ کاش آگ کا پہاڑ ہمارے اور ان کے درمیان ہوتا۔ وہ اُدھر رہتے اور ہم اس طرف۔ صلح حدیبیہ بھی جنگ سے بچنے کی بہترین حکمت عملی تھی اگرچہ یہ معاہدہ بظاہر مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی تھا مگر حضرت محمد نے جنگ کے مقابلے میں امن کے قیام کو ترجیح دی تھی۔

نبیء پاک نے کل 27 غزوات لڑے جو تمام کے تمام دفاعی تھے۔ جنگ کھیل نہیں، ابلتا ہوا تیل ہے۔ جنگ پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ جنگ انسانیت نہیں، حیوانیت ہے۔ جنگ خوشحالی نہیں، بدحالی ہے۔ جنگ تعمیر نہیں، تخریب ہے۔ جنگ ترقی نہیں، تباہی ہے۔ جنگ زندگی نہیں، موت ہے۔ جنگ پانی نہیں، آگ ہے۔ جنگ بھوک، ننگ، افلاس، ناداری، بیماری، لاچارگی، درماندگی اور بیچارگی کی کرہیہ تصویروں کا بدنما و بوسیدہ ماحول ہے۔ جنگ صرف انسانی جانوں کا ضیاع نہیں تہذیب و ثقافت کی پائمالی، معاشرت و تمدن کی قتل و غارت گری، عزت و آبرو کی قربانی، فنون لطیفہ کی بربادی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی سہولیات کی تباہی بھی ہے۔

جنگوں کا ایندھن بننے والے سپاہی بھی ماؤں کے جگر گوشے، باپوں کے لخت جگر و نور نظر، بہنوں کا مان، سہاگنوں کا سہاگ اور ننھے منے معصوم بچوں کے پدر ہوتے ہیں، جن کو ان کی معاشی مجبوریاں آگ اور خون کے اس کھیل کا حصہ بننے پر مجبور کر تی ہیں۔ جارج بر نارڈ شا نے آسٹریا اور سربیا کے درمیان ہونے والی خوں ریز جنگ کی ہولناکیوں پر لکھے گئے اپنے مشہور ڈرامے ”آرمز اینڈ دی مین“ میں کیا شاندار اور انسانی نفسیات کے قریب جملہ لکھا ہے کہ سپاہی شہادت کے لیے نہیں، پیٹ کے لیے لڑتا ہے۔

جناب عمران خان سے لاکھ اختلافات کے باوجود ہم کل کی ان کی امن کی خواہش اور ضرورت پرمبنی تقریر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں بیٹھے اپنے ہم منصب مودی کو نہایت سنجیدگی سے دو ٹوک انداز میں جنگ سے بچنے کا پیغام دیا ہے۔ خدا نخواستہ جنگ ہو گئی تو روایتی نہیں ایٹمی جنگ ہو گی اور ایٹمی جنگ کس قدر تباہ کن اور خوف ناک ہوتی ہے، اس کی شدت کا ہلکا سا اندازہ لگانا ہو تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے باسیوں سے پوچھیں جہاں آج بھی بھوک و احتیاج اگتی ہے اور معذور بچے جنم لیتے ہیں۔

ایسی جنگ میں مرنے والوں کو قبریں نصیب نہیں ہوتیں اور بچ جانے والے زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف کے کچھ جنونی جنگ باز اور خون آشام لوگ اپنے نوخیز اور معصوم ذہن والوں کو یہ نہ بتائیں کہ اُدھر رہنے والا ہر ہندو جس سے مجھے کبھی زندگی میں ملنا بھی نہیں، وہ میرا ازلی ابدی دشمن ہے اور نہ سرحد کے اس پار والے بتائیں کہ واہگہ بارڈر کے اِس پار بسنے والا ہر مسلمان ہمارا عدو ہے۔ جناب عمران خان نے مودی کو بقول شاعر بالکل درست مشورہ دیا ہے

میرے حریف سے کہہ دو اسے معاف کیا

میں چاہتا ہوں کہ بدلے کی آگ ٹھنڈی ہو

جنگ کے ذریعے امن کی بحالی کے خواہشمند خون انسانی سے آلودہ ہاتھ محبت کے پانی کے بجائے نفرت کے خون ہی سے دھونا چاہتے ہیں۔ جنگ کرنا ہی ہے تو دونوں طرف کے افتادگان خاک اور مفلو ک الحال بھوک پیاس اور علاج کے لیے بلکتے مظلوموں کے لیے کیجیے۔ پاکستان میں اس وقت آٹھ کروڑ جبکہ بھارت میں اکسٹھ کروڑ آبادی غربت کا شکار ہے۔ پاک بھارت حفظان صحت، معیار زندگی، تعلیم اور انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کے بد ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت کے دفاعی بجٹ کا حجم 58 ارب ڈالرز جبکہ پاکستان کا گیارہ ارب ڈالرز ہے۔ تفصیل میں طوالت ہے بس اتنا سن لیں پاک بھارت دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیا چن میں جتنا سالانہ اخراجات کرتے ہیں اس سے دونوں جانب کی بہت سی آبادی کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔ جنگ سرمائے کا مدفن ہے۔ قارون کا خزانہ بھی ہو تو کم پڑ جاتا ہے۔ جنگ میں کتنے وسائل درکار ہوتے ہیں اس کے لیے یہی ایک مثال کافی ہے کہ سکندر جب دنیا کو فتح کرنے کے لیے نکلا تو اس کی سپاہ کے یومیہ اخراجات نصف ٹن چاندی کی مالیت کے برابر تھے۔

تاریخ کی اکثر جنگیں مطلق العنان اور خود سر بادشاہوں اور حاکموں کی جھوٹی انا کی تسکین کی لیے لڑی گئیں۔ ان حالات میں جناب عمران خان نے بھارت کو جنگ سے باز رہنے کا معقول پیغام دیا ہے۔ وہ ملک و قوم کے لیے درہم و دینار کی بھیک تو مانگتے ہی رہتے ہیں آج امن کے عالمی ٹھیکیداروں سے امن کی بھیک بھی مانگ کر سب کو نہال کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).