الوداع ونگ کمانڈر ابھے نیندن!


یہ سطریں شائع ہونے تک بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھے نیندن پاکستان سے اپنے وطن اور گھر پہنچ چکے ہوں گے۔ ہندوستان کے باشندے اور ان کے گھر والے ان کی واپسی پہ یقیناً خوش ہوں گے لیکن ہم پاکستانی ان کے جانے پر خوشی، دکھ اور فخر کے ملے جلے جذبات و احساسات سے سرشار ہیں۔ خوشی ان کی رہائی پر ہے، دکھ ان کی جدائی پر اور فخر ان کی بہترین رکھوالی پر۔

ابھے نیندن جی نہ صرف ایک بہادر فوجی نظر آئے بلکہ تعصبات سے بالاتر اور جلد گھل مل جانے والے ایک محب وطن، زیرک اور بے باک انسان کے طور پر بھی سامنے آئے۔

پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر آئے تو انہوں نے ایک حقیقی فوجی کے طور پر اپنے حواس بحال رکھے، مقام کا پتہ لگانے کی کوشش کی، پھر پیچھا کرنے والوں کو پستول کی ہوائی فائرنگ سے ڈرانے اور اس میں ناکامی پر بھاگنے کی کوشش کی۔ جب اس میں بھی ناکام ہوئے تو اپنے ساتھ موجود اہم سرکاری مواد کو نگلنے اور پھر دریابرد کرنے کی تگ و دو کی۔ پھر ہتھیارپھینکنے سے پہلے لوگوں سے اپنی زندگی کا وعدہ لیا۔ ایک دو بندوں نے جب تھپڑ مارے تو بھی وہ نہ چیخے چلائے نہ فریاد کی بلکہ وقار کے ساتھ کھڑے رہے۔ پھر جب پاکستانی فوج کے دو سپاہی پہنچے تو انہیں اپنا سرکاری نمبر بتایا اور جب سپاہی نے اپنے افسر کو نمبر بتانے میں غلطی کی تو انہوں نے، باوجود یہ کہ انہیں زمین پر گرا کر ان کی گردن دبوچی گئی تھی، بلند آواز سے جرأت کے ساتھ غلطی کی دو دفعہ تصحیح کی تھی۔

اگرچہ انہوں نے پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور اپنی بہترین رکھوالی پر ان کا شکریہ ادا کیا، چائے کا لطف اٹھایا، ہمارے فوجی افسر کے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت کی لیکن کوئی پیشہ ورانہ معلومات دینے سے صاف انکار کیا۔

ابھے نیندن ایک محب وطن ہندوستانی کے طور پر پاکستان ”شکار“ کی تلاش میں آئے تھے لیکن ان کا جہاز خود شکار ہوگیا۔ وہ خود بچ گئے اور زیادہ خوشی کی بات یہ کہ کہ ان کی زندگی اور امن کے نام پر رہائی کے ساتھ جنگ کے امکانات بھی کم یا ختم ہوگئے۔

واہگہ سرحد پر جس خندہ پیشانی اور فوجی وقار کے ساتھ وہ کھڑے تھے اس سے بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ ہندوستان کی نظر میں ایک دشمن ملک کی سرزمین پر اور ایک ”دشمن“ فوج کے درمیان کھڑا کوئی جنگجو تھا بلکہ جیسے کوئی اپنے پیاروں کے درمیان کھڑا ہوا ہے۔

ابھے نیندن جی آئے، دکھائی دیے اور اپنے رکھ رکھاٶ سے پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا کر چلے گئے۔

ابھے نیندن جی نے تو پاکستانی فوج کی محبت اور پیشہ ورانہ انسان دوست انداز و اطوار دیکھ لیے۔ امید ہے باقی ہندوستانی بھی جلد ماضی کی باہمی نفرت اور غلطیوں کو بھلا کر پاکستان کو اپنا ایک ہمدرد اور پیارا پڑوسی سمجھنا اوراس کے ساتھ امن سے رہنا شروع کر دیں گے۔

ابھے نیندن جی بڑے خوش قسمت نکلے کہ نہ ان کے پردھان منتری نریندر مودی نے ان کی رہائی کے لیے کوئی اپیل کی اور نہ اس ضمن میں ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کی گئی کالز کا جواب دیا لیکن پھر بھی صرف امن اور صلح کے نام پر وزیر اعظم عمران خان نے ان کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔ اب یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی اگر ہندوستانی حکومت اور میڈیا اس کو مجبوری میں لیا گیا اقدام قرار دے۔ اس سے صرف امن کی آشا کو ہی نقصان پہنچے گا۔

ابھے نیندن جی نے کہا تھا میں واپس جاکر پاکستانی فوج کی تعریف والا اپنا بیان واپس نہیں لوں گا۔ ایسا ہوگیا تو وہ قول و قرار کے پکے بھی ثابت ہو جائیں گے۔ دعا ہے کہ ان کی رہائی مستقبل میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان امن اور دوستی پروان چڑھانے میں معاون ہو۔

پاکستانی فوج کے جن جوانوں کے ساتھ وہ رہے وہ اور پاکستانی عوام ان کو مس کریں گے۔ امید ہے وہ بھی وہاں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے علمبرداروں کی نحیف آواز کو مضبوط بنائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).