امریکن ایجنٹ کی نشانیاں


نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد جب ابا میاں، اُنکی سائیکل اور ہم۔ مسجد سے باہر آئے تو جذبہ حُب الوطنی عروج پر تھا۔ مارچ 2006 کا پہلا جمعہ تھا اور امریکہ بہادر کے خلاف شدید نعرے لگ رہے تھے، لگتے بھی تو کیوں نا۔

امریکن صدر بش اپنے دوست ”جنرل مشرف“ کی دعوت پر پاکستان جو آ رہے تھے۔ ہم نے بھی خوب جوش و خروش سے نعرے لگائے، آخر یہ زندگی کا پہلا سیاسی و مذہبی جلوس تھا جس میں ہمیں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مشرف اور بش کے یار کو ہم نے غدار ثابت کیا، ہائے ہائے کے نعرے لگائے۔ اور دل میں ڈھیر ساری بدعائیں صدر مشرف کو دیتے رہے۔ آخر کو ہمارے ساتھ کے تمام لوگ بھی تو اُس کو بُرا بَھلا کہہ رہے تھے۔ بہرحال ہمیں تو ایک تماشا ہاتھ آ گیا تھا اور اس میں شرکت کی خوشی تھی۔ جلوس ذرا آگے بڑھا تو اعلان ہوا کہ اب اسلام آباد ہماری منزل ہو گئی۔ اگرچہ فیض آباد ہی منزل تھی مگر والد صاحب کو شاید ہمارا شغل مزید برداشت نہ ہوا، ویسے بھی سالانہ امتحانات کے دن تھے تو ہمیں گھر کو لوٹنا پڑا۔

عرصہ دراز بیت گیا، ہم نے لڑکپن کی سرحد عبور کی اور ایک روز جب شعور کی چند کرنیں ہم تک پہنچیں تو ایک سیانے بُزرگ نے بتایا کے ملتِ اسلامیہ کہ اس اہم ستون میں جس چیز کے ساتھ بھی اسلام لگا دیکھو، سمجھ جاؤ، وہ اسلام سے مکمل خالی ہے۔ چاہے وہ اسلامی جمہوریہ ہو، اسلام آباد ہو یا پھر اسلام کے نام پر بنی کوئی بھی سیاسی جماعت۔ خود تجزیہ کیا، سمجھ گئے کہ یہ تمام بھی اسلام سے اتنا ہی تعلق رکھتے ہیں، جتنا انہیں ضرورت ہے۔

ویسے ہم نے اپنی سرکاری مقدس کتابوں میں پڑھا تھا کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اسلام کے اس ”قلعہ“ کے خلاف سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔ وہ تو بھلا ہو پہلے وزیر اعظم کا جنہوں نے ملحد روس کا بروقت بندوبست کیا اور امریکہ بہادر سے ”دوستانہ“ تعلقات استوار کر لیے۔ اب کچھ کم عقل ان پر امریکہ نواز ہونے کا الزام لگاتے ہیں، تو ان کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ خود بتائیں اگر اس وقت امریکہ سے تعلقات قائم نہ ہوتے تو کیسے ہمارے مجاہدین کی امداد کو امریکی اسلحہ پہنچ پاتا۔ اور اگر مجاہدین اس ”غیبی مدد“ سے محروم رہ جاتے تو پھر گرم پانیوں پر بے دین روس کا قبضہ ہو چلا تھا۔

امریکن جیسے بھی ہیں، کم ازکم اہل کتاب تو ہیں نا۔ اے کاش ہمارے تعلقات میں اسّی کی دہائی والی گرم جوشی رہتی تو شاید آج اوبامہ کی دادی کے ساتھ ساتھ ٹرمپ بھی مسلمان ہوتا۔ میں نے تو سنا، بلکہ یوٹیوب پر موجود ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ امیر المؤمنین جنرل ضیاء مرحوم ملکہ برطانیہ کو افغان سرحد پر لے گئے تھے، جہاں افغان مجاہدین کے جذبہ کو دیکھ کر ملکہ معظمہ بہت متاثر ہوئیں۔ یقیناً اُمتِ مسلمہ کے لیے اِس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو گی کہ ملکہ برطانیہ خود امیر المؤمنین کے ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد کے فروغ پر بات کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر امیر المؤمنین کا شوق شہادت رنگ لے آیا اورجہاز پھٹ پڑا لیکن جاتے جاتے آپ نے ملحد روس کے ٹکڑے ضرور کر ڈالے۔ (ملکہ الزبتھ نے 1961 اور پھر 1997 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ ضیاالحق کے دور حکومت مین کبھی پاکستان نہیں آئیں۔ مدیر)

اچھا جناب بات یہ ہے کے دنیا میں جتنے بھی اسلامی مجاہدین ہوں آپ اُنکے ظاہری و باطنی مقاصد دونوں پر ٖغور فرمائیں آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ تمام نعرہ تو شریعت، طریقت خلافت جہاد اور اسلام کا لگائیں گے مگر دنیا کے ہر بڑے مسئلے پر آپ ان کا موقف دیکھ لیں امریکہ بہادر اور ان کے بیان میں رتی برابر فرق نہ ہو گا۔ مصر کا حسنی مبارک امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا تمام دنیا کے مجاہدین نے اس کی بھر پور مخالفت کی، لیبیا کا قذافی بی بی سی کے خبر ناموں میں قزاق دکھایا جاتا تھا تمام اُمت مسلمہ کے مجاہدین بھی اس کے خلاف برسَر پیکار ہو گئے۔ آخر میں شام کا بشار امریکہ مخالف تھا، پرانے تمام جہادیوں سمیت خلافت کی نئی دعوے دار داعش نے بشار کے خلاف بھر پور جنگ لڑی۔ قصہ مختصر آپ دیکھیں گے ہر جہادی، اسلامی اوپر اوپر سے نعرہ تو امریکہ کے خلاف لگائے گا مگر اول و آخر تمام سرگرمیاں امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے کرے گا۔

اصل میں تو سی آئی اے نے یہ تمام جہادی بنائے ہی اس لیے تھے کہ دنیا بھر میں ان کے نام پر خوف و ہراس پھیلایا جائے اور پھر قیام امن کے لیے امریکہ بہادر اپنی خدمات ارزاں نرخوں پر فروخت کر سکے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا ان سامراجی چالوں سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے اور امریکہ کا ڈوبتا سورج بھی اس بات کا گواہ ہے کہ شام کا بشار الاسد ہو یا افغانستان میں ہزیمت شدہ نیٹو مسلح افواج۔ اپنے ہی نام نہاد مخالف جتھے پیدا کر کے ان کے نام پر نوٹ کمانے کی امریکن حکمت عملی اب چلے ہوئے کارتوس کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

اور تو اور، ہمارے وہ تمام ملاء جو نیٹو کے ٹینکرز کے آگے لیٹنے کے دعوئے کرتے تھے جب مال پانی بند ہوا تو اب انہیں بھی اپنی روزی روٹی کے لالے پڑے ہیں اب ان میں سے کئی ایک کو یاد آ گیا کہ افغان جہاد ہم نے صرف امریکہ کی خوشنودی کی خاطر کیا۔ امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست ہو یا نہ ہو، روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہو یا نا ہو مجھے اتنا ضرور پتا ہے کہ اٖفغانستان آج بارود کی راکھ ہے، پاکستانیوں کی لاکھوں لاشیں گر چکی ہیں اور دنیا اب بھی ہمیں امن پسند ماننے سے انکاری ہے۔

ڈاکٹر نجیب کا بیان یاد آ رہا ہے جو اس نے ہم پاکستانیوں کو انتباہ کرتے ہوئے دیا تھا کہ آج اگر آپ افغانستان میں آگ لگا رہے ہو تو کل یہی آگ آپ کا اپنا گھر بھی جلا ڈالے گی، اور پھر وہی ہوا ہم نے افغان جہاد کی آگ لگائی اور کئی دہائیوں سے اپنا گھر بھی جلا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).