جنگیں ہمیشہ ہی ناگزیر کیوں رہیں؟


دورانِ جنگ انسانوں کی درجہ بندی ان کی دشمنوں کو تباہ کرنے کی اہلیت سے کی جاتی ہے جبکہ عام حالات میں انسانوں کو ان کی پیداواری صلاحیتوں سے ناپا جاتا ہے جنگیں تاریخ ِ انسانی میں ایک مستقل حثیت رکھتی ہیں مستند انسانی تاریخ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پر محیط ہے اس دوران بہت کم عرصہ ایسا گزرا ہے جس کو ہم پر امن کہ سکیں۔ ہرقلیطس (مشہور یونانی فلسفی جس نے کہا تھا کائنات آگ سے بنی ہے اور جس کا مشہورِ زمانہ قول ہے، تم ایک ہی دریا میں دو دفعہ قدم نہیں رکھ سکتے ) کہتا ہے جنگ یا مقابلہ ہی تمام چیزوں کا بانی ہے تمام نے نظریات اور ایجادات جنگ کی گود میں ہی پرورش پاتے ہیں

جنگ کے ہم مجموعی محرکات دیکھیں تو تقریباً وہی ہیں جو افراد کے درمیان مقابلہ کے ہوتے ہیں یعنی حرص، جھگڑالو پن، غرور، خوراک، زمین اشیا اور ایندھن کے حصول کی طلب اور سب سے بڑھ کر حاکمیت کی خواہش۔ بظاہر تو سب انسان امن کے خواہاں ہیں لیکن ول ڈیورنڈ ایک حقیقت پسند فلسفی کہتا ہے ”امن ایک غیر مستحکم توازن ہے جو ایک فریق کی دوسرے پر مسلمہ برتری یا متحارب فریقین کی مساوی طاقت کی بنا پر ہی قائم رہ سکتا ہے

جنگوں کے پس منظر میں معاشی عنصر ہی سب سے نمایاں نظر آتا ہے بیشک بظاہر یہ مذہب یا قومیت کے نام پر لڑی جائیں۔ مثلاً ایکلیز اور ہیکٹر ٹروجن لڑائی کے ہیرو تھے، انہوں نے کبھی تصور بھی کیا ہو گا کہ یونانیوں کو ایک ہزار جہازوں کے ساتھ ٹراے پر آمادہ شہزادی ہیلن کی خوبصورتی نے نہیں بلکہ درہ دانیال پر تجارتی قبظے کی خواہش نے کیا تھا۔ سپاہیوں اور عوام کی انا تو کسی نہ کسی بہانے بیدار کر ہی دی جاتی ہے جب بھی کسی ریاست نے کسی دوسری ریاست سے خطرہ یا تصادم کا امکان محسوس کیا تو اس نے اپنے عوام میں اس ملک کے خلاف نفرت کو ہوا دینی شروع کر دی اور اس نفرت کو نقطہء عروج تک پہنچانے کے لیے دل میں کھب جانیوالے نعرے وضع کیے (اس کی ایک مثال موجودہ نسل امریکہ کی عراق اور افغانستان کے خلاف جنگ کے دوران دیکھ چکی ہے ) لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے حکمرانوں نے اپنی امن پسندی کا پرچار بھی جاری رکھا

بادشاہت میں جنگ اور بھی ناگزیر ہو جاتی ہے وہاں ہمیشہ بغاوت کا خطرہ موجود ہوتا ہے وہاں جنگ اپنے ہی سپاہیوں اور جرنیلوں کو مصروف رکھنے کا ایک ذریعہ بھی تھی۔ سپہ سالار سے یہ امید رکھی جاتی تھی کہ وہ اگلے محازوں پر لڑیں گے بہت سے جرنیل تو محازِ جنگ پر ہی کام آ جاتے تھے اور اگر کچھ پھر بھی سرخرو ہو کر بادشاہت کے لیے خطرہ بن سکتے تھے تو دوسرے حل موجود تھے اس کی کچھ جھلکیاں اپ کو اسلامی تاریخ میں بھی مل جائیں گی یہاں مجھے ضمناً لنکن کے ایک خط کا جملہ یاد آ رہا ہے جو اس نے اپنے ایک جرنیل کو محاذِجنگ پر لکھا ”مجھے پتہ ہے جو جرنیل مسلسل فتوحات حاصل کرتے ہیں، ان سے بغاوت کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ لیکن آپ جنگ جیتیے، میں یہ خطرہ برداشت کرنے کے لئے بھی تیار ہوں

یہ سارے محرکات ہمیشہ ہی رہیں گے لیکن ہم زمیں پر رہنے والے کیا کبھی ایک ہو سکیں گے؟ یہ شاید صرف اسی صورت میں ممکن ہو جب سارے سیارہ زمیں کے لوگوں کو کسی مشترکہ دشمن کا سامنا ہو جیسے ہم پاکستانی عام دنوں میں مختلف فرقوں صوبوں زبانوں یا قومیتوں میں بٹے رہتے ہیں لیکن ہندوستان سے متوقع جنگ کے موقع پر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).