آخر کس کے لئے؟


آواز اَن سُنی اتنی شدید کے کانوں کے پردے چاک کر گئی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا تھا راقم ارضِ خاک کے ساتھ خاک ہو گیا۔ جنگ تو ایسے ہی ہوتی ہے، آپ کو مجھے کہاں موقعہ ملے گا اپنی تنقید بیچنے کا، ہو گا یہ کوئی بم دُشمن کا، پہلے اپنے بچوں کو پڑھا لیجیے۔ صُلح کا قدم خان صاحب نے بڑھایا اچھی بات، معاملہ کی شدت میں کمی آرہی ہے بہترین، لیکن سوال تو وہی ہے، آخر کِس کے لئے جنگ؟ مستقبل کشمیر کا بغاوت کو 30 سال ہو گئے مجاہدین لاتعداد بار بدنام ہوئے آپ بھی اُنھیں دہشتگرد قرار دے گئے۔ مگر اب وہ مجاہد ہیں یا دہشتگرد؟

راقم کے مُحلے میں ایک بڑے شریف سادہ لوح حافظ صاحب رہتے ہیں ماں باپ نے نام اظہر رکھا تھا ہم عزت سے انکل حافظ کہتے ہیں اُنکا بیٹا مسعود بڑا شرارتی، ہم عمر ہے، پورے مُحلے کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اندھیرا رات کا اور چُپکے سے کُنڈی کھڑکانا، پاؤں میں ماچس بم چلانا کم بخت بلا کا ماہر تھا بڑا دہشتگرد تھا ہم سب طنزاً کہتے۔ محلے سے علاقہ کے شریر گروہ کا سرغنہ بن گیا تو انکل حافظ نے تنگ آ کر ہاسٹل داخل کروا دیا۔

مگر کیا کریں جب سرشت ہی شیطانی ہو ہاسٹل والوں کو بھی اپنے دُم چھلوں کے ساتھ نچایا تو ہاسٹل کے پرنسپل نے انکل حافظ کو مشورہ دیا کیڈٹ کالج میں داخل کروا دیں وہ بڑے سخت، نظم کے پابند تیر کی ماند سیدھا کر دیں گیں۔ تین سال ہونے کو ہیں مسعود گرمیوں کی چُھٹیوں میں گھر آتا ہے مگر مُتعجب ہوں یہ خوبصورت فوجی کَٹ والا لڑکا مسعود ہی ہے، خاموش طبع، نہ کوئی شرارت، سیدھی اچھی باتیں، انکل حافظ بہت خوش ہیں میرا بیٹا سُدھر گیا۔

مگر ناجانے مسعود کے آنکھوں میں کچھ شیطانی بزم سے دکھائی دیتی تھی۔ بہرحال ہم خوش ہیں محلے علاقے میں سکون ہے مگر پرسوں خبر آئی مسعود نے اپنے کالج کے پرنسپل برگیڈئیر (ر) امین الدین صاحب کا قتل کر دیا۔ جب پولیس مسعود کو گرفتار کر کے لیجا رہی تھی تو انکل حافظ نے گُلو گیر لہجے میں کہا عادت تو بدلی جا سکتی ہے مگر فطرت نہیں میرا بیٹا فطری شیطان ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی جنگ کی اب جب فطرت میں ہی استبداد اور شرارت ہو تو ماں تو سر پیٹے ہی گی نا۔ جنگیں روکنے کے لئے جنگ والے روکنا ضروری ہیں۔ اور جب فطری تبدیلی مقصود ہو تو سوال پوچھتے رہیے،

آخر کس کے لئے؟
(راقم پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے طالبعلم ہیں )

سید کفیل عباس
Latest posts by سید کفیل عباس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).