یہ سلیوٹ آپ کو مہنگا پڑ سکتا ہے، سنجو بھائی


سنجو بھائی، السلام علیکم !

یہ خط میں آپ کو ونگ کمانڈر ابہی نندن کی جیب میں ڈال کر بھجوارہا ہوں۔ جب آپ اُن کو سلیوٹ کرنے جائیے گا، تو ضرور لے لیجئے گا۔ باقی حالات یہ ہیں کہ یہاں سب خیر خیریت ہے۔ اور آپ کی طرف بھی خیر خیریت ہی نظر آ رہی ہے۔ اور گھبرائیے مت، انشاءاللہ سب خیر خیریت ہی رہے گی۔ ہماری اور آپ کی ساری بلائیں کشمیر والے ہی اٹھا رہے ہیں۔ اور آگے بھی یہی لگتا ہے کہ وہی واری واری جائیں گے۔

ایک منٹ ذرا ٹھہریئے، پہلے ادھر کچھ دوستوں کے اعتراضات تو دور کردوں، جو ایک ہندو کو سلام کرنے اور بھائی بولنے پر کچھ خفا ہو رہے ہیں۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ مجھے بھی آپ کے کچھ Diehard Fans کی طرح غلط فہمی ہے کہ آپ نے چپکے سے اسلام قبول کر لیا ہے۔ تب ہی تو آپ کو وہاں کی تنگ نظر قوتوں کے ہاتھوں بڑی سخت کٹاس پڑی تھی۔ ہوسکتا ہے یہ بات کسی نے پھینکی ہو، پھر بھی بھیا آپ آدھے مسلمان تو ہوئے نا، نرگس جی کی وجہ سے۔ حالانکہ میری نظر میں سنیل دت صاحب اُن سے بڑے مسلمان تھے۔ اب میرے اس جملے پہ بھی ہو سکتا ہے، کچھ لوگوں کے جذبات میٹر ہوجائیں، تو اُن سے عرض ہے کہ سنیل دت صاحب نے وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی بُرے وقت میں جتنی مدد اور پشت پناہی کی، اُن کے خراج تحسین کے طور پر میں اُنہیں اعزازی طور پر ایسا بول رہا ہوں۔ اُن لوگوں سے گزارش ہے کہ اُنہیں اگر سنیل دت صاحب کے بارے میں علم نہیں ہے تو وہ فلم ”سنجو“ ضرور دیکھ لیں۔

ویسے سنجو بھائی، آپس کی بات ہے۔ تھی تو وہ آپ کی بائیو پک، مگر ہیرو اُس کے دت صاحب ہی نکلے۔

سنجو بھائی، مجھے آپ سے اتنی محبت ہے، کہ آپ کی وجہ سے میں رنبیر کپور جیسے ماٹھے ایکٹر کا بھی فین ہو گیا۔ ایسی چکاس ایکٹنگ کی تھی اُس نے۔ ایک دم فوٹو کاپی لگ رہا تھا آپ کا۔ لیکن دو چار دنوں سے میں بہت اداس ہوں سنجو بھائی۔ دل توڑ دیا آپ نے میرا۔ جب سے آپ نے اپنی ایئرفورس کو ٹیوٹر پہ سلیوٹ مارا ہے۔ تب سے آپ اچھے نہیں لگ رہے مجھے۔

سنجو بھائی ! آپ بنا سوچے، سمجھے، ناپے، تولے ترنگ اور مستی میں آکر کسی بھی للو پنجو، ٹچے مچے، ایرے غیرے، سڑک چھاپ ٹپوری کو تو سیلوٹ مارسکتے ہیں۔ مگر اس طرح کا چاپلوسانہ سلیوٹ ؟ کچھ سوٹ نہیں کرتا آپ کی پرسنالٹی کے ساتھ۔ آپ جیسا بندہ، جس نے خود دہشت گردی کے الزام میں اتنے رگڑے کھائے، بے گناہ جیلیں کاٹیں، بے قصور عدالتوں کے چکر لگائے، بے وجہ تھپڑ کھائے، وہ اتنی جلدی کیسے کسی پروپیگنڈے کا یقین کر سکتا ہے۔ آپ کی فلم دیکھ کر ایسا لگا کہ آپ کو ٹاڈا جیسے کالے قانون نے نہیں بلکہ پریس اور الیکٹرانک میڈیا کی جھوٹ اگلتی بے سروپا خبروں نے سڑکوں پہ گھسیٹا تھا۔ آپ کا چین، سکون، کیریئر، آپ کی خوشیاں، آپ کے رشتے، سب انہی نیوز رپورٹرز اور اینکرز نے ہی تو چھینے تھے۔ آپ کو یاد ہے، آپ دہشت گردی کا لیبل لگنے کی وجہ سے ایک فنکشن میں اپنے باپ کے بارے میں چار الفاظ تک نہیں بول سکے تھے۔ اُس عظیم شخص کے بارے میں، جس نے آپ سے زیادہ آپ کے لئے اذیت کاٹی تھی۔

سنجو بھائی ! سیاست، ریاست اور صحافت کے اس تکون کو آپ سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا۔ جو جب چاہے، جس کو چاہے، دہشت گرد، غدار اور گناہ گار ٹھہرا دے۔ مجھے تو آپ جیسے straight forwardآدمی سے یہ توقع تھی، کہ وہ سلیوٹ مارنے کے بجائے سوال اٹھائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سنیل دت صاحب زندہ ہوتے، تو شاید ایسا ہی کرتے۔

پلوامہ میں شہید ہونے والے سی آر پی ایس کے وہ چالیس جوان آپ کے بھائی تھے، تو اُن پر بارود بن کر جھپٹنے والا وہ بیس سالہ نوجوان کون تھا؟ آپ ہی کے اٹوٹ انگ کشمیر کا ایک فرزند۔! چلیں، میں مان لیتا ہوں، اُسے بارود کسی اور نے دیا، لیکن وہ غصہ کس کا دیا ہوا تھا؟ جس نے بیس سال کے ایک خواب دیکھنے والے نوجوان کو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا۔ اُس کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا نا سنجو بھائی۔ کسی نے بے قصور مرغا بنایا ہو گا۔ بے وجہ تھپڑ مارا ہو گا۔ بے گناہ ناک رگڑوائی ہوگی۔ میری نظر میں تو وہ بھی ایک سنجو تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ اُس کا باپ سنیل دت نہیں تھا۔ اس لئے ریاست کی طرف سے ہونے والی بے عزتی اور ناانصافی کا جوش اور غصہ کسی کے قابو میں نہیں آیا اور وہ پھٹ پڑا۔

ہو سکتا ہے اُس نے بھی وہیں سے بارود لیا ہو، جہاں سے آپ کے لئے اسلحہ آیا تھا۔ آپ پر بھی تو یہ الزام لگا تھا نا کہ آپ کو سرحد پار سے بندوقیں ملی ہیں؟ ہوسکتا ہے ملی بھی ہوں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ آپ کو وہ بندوقیں چاہئے کیوں تھیں؟ آپ کے بجائے وہ دلیپ کمار، عامر خان اور سلمان خان کے گھر تک کیوں نہیں پہنچیں؟ آپ اپنے اُس وقت کے حالات یاد کریں اور آج کے عادل احمد ڈار کے حالات دیکھیں، آپ کو سب سمجھ میں آجائے گا۔

مسئلہ بندوق اور بارود کا نہیں ہوتا سنجو بھائی۔ وہ تو کہیں سے بھی آسکتا ہے ہمارے ہاں سے آپ کی طرف، اور آپ کے ہاں سے ہماری طرف۔ مسئلہ تو سنجو اور عادل جیسے نوجوانوں کا ہے۔ اُنہیں اُن کی اپنی ریاستیں پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ پیدا نہ ہوں، تو اُن کے کاندھے پہ بندوق رکھنے والا، یا سینے پہ بارود باندھنے والا، منہ کی کھائے گا۔ بھلے وہ آپ کی طرف کا ہو، یا ہماری طرف کا۔

بہرحال ! اس خط کے بعد آپ ضرور سوچئے گا۔ سلیوٹ کے بجائے سوال کیجئے گا۔ کیونکہ کشمیر کی وادی میں اور بہت سارے سنجو میٹر ہوئے بیٹھے ہیں۔ بس چابی دینے کی دیر ہے۔ آگے اس سے بڑا سانحہ ہوسکتا ہے۔ صرف پلوامہ نہیں، پونا تک بھی بات پہنچ سکتی ہے۔

اور پلیز ! میرا یہ پیغام شبانہ اعظمی صاحبہ، جاوید اختر صاحب، سلو بھائی، اجے دیوگن، اکشے کمار، ابھیشیک بچن، رجنی کانت، ورون دھون، انوپم کھیر، پاریش راول،کیلاش کیل، وویک اوبرائے، ایکتا کپور، یامی گوتم اور خاص طور پر Unicefکی Goodwill Ambassador  پریانکا چوپڑا اور دوسرے دوستوں اور ساتھیوں کو دے دیجئے گا۔ اُن سے کہئے گا کہ بنا سوچے سمجھے سلیوٹ مارنا بہت مہنگا پڑسکتا ہے بھائی۔ آپ کے وردی والوں کو اگر اس کی عادت پڑ گئی، تو وہ روز کوئی نہ کوئی تماشا کر کے آپ سے داد وصول کریں گے۔ آہستہ آہستہ اُن کی گڈی چڑھ جائے گی اور آپ کا ہیروازم ماند پڑجائے گا۔ عادت مزید خراب ہوگئی، تو وہ چھاﺅنیوں سے باہر نکل آئیں گے اور پھر ایسی ایسی فنکاریاں دکھائیں گے کہ آپ یاد رکھیں گے۔ آج آپ کا جنون اُنہیں سلیوٹ کر رہا ہے۔ کل آپ کی مجبوری اُنہیں سلیوٹ کرے گی۔ ہو سکے تو یہ بات مودی بھائی کے کان میں بھی بول دیجئے گا۔ کہ وہ کرسی پر بیٹھنے کے لئے بندوق کا سہارا لینا چھوڑ دیں۔ ورنہ جب تک بیٹھیں گے، گن پوائنٹ پر رہیں گے۔

اپنا خیال رکھئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).