کیا صرف مودی ننگا ہوا ہے ؟


جب سے جنگی جنون کی کالک برسنا شروع ہوئی ہے بہت سے ذی شعور جنگ کہ تباہی کاریوں سے متنبہ بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں خیالات میں ایک محشر برپا ہے اور نبض ہستی کچھ اس انداز سے چل رہی ہے گویا شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو۔ ولادی میر لینن بہت بڑا آدمی تھا اور صرف ایک بات پر کرینسکی کی قلابازی لگوا دی کہ وہ جرمنی کے ساتھ جنگ جاری نہیں رکھے گا جبکہ کرینسکی جنگ جاری رکھنا چاہتا تھا اور روسی عوام جنگ سے تنگ آئے ہوئے تھے۔

لینن نے کیا اچھی بات کہی تھی کہ جنگیں بہت خوفناک ہوتی ہیں لیکن خوفناک حد تک منافع بخش بھی۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بھارت میں اٹھتر فی صد لوگ جنگ چاہتے ہیں اور بائیس فیصد بالکل جنگ نہیں چاہتے اور وہ بائیس فی صد بھارت کی افواج ہیں گوکہ ان کا نیول چیف کہتا ہے کہ ہر لحاظ سے تیار ہے لیکن مجھے یقین ہے ان کی فضائیہ کے چیف نے بھی نندن کو بھیجنے سے پہلے یہی کہا ہو گا۔ ہم دونوں اتنے سیانے ضرور ہیں کہ جنگ نہیں کریں گے لیکن صرف جنگی جنون پیدا کر کے اور جنگ کی فضا بنا کر بھی بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

معاف کیجئے گا میں نہ تو کوئی تجزیہ نگار ہوں اور نہ کوئی ماہر لہذا میں کوئی تجزیے پیش کرنے نہیں بیٹھا کہ جنگ مودی کے لئے الیکشن سٹنٹ ہے یا نہیں، خان صاحب کے لئے اللّٰہ کی طرف سے مدد آگئی کہ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ محسوس ہی نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف کے بارہ ارب ڈالر پر سود کی قسط عوام کے کن نازک اعصاب پر بجلی بن کر گرے گی، نندن کو واپس بھیج کر پاکستان نے وہ سارے داغ دھو دیے جو انتہا پسندوں کے ریاستی تحفظ پر دلالت کرتے تھے، پاکستان کو تنہا کرنے کا بھارتی خواب چکنا چور ہو گیا، او آئی سی میں بھارت کا بیٹھنا عمران حکومت کی ناکام ڈپلومیسی کا شاخسانہ ہے، جنگی جنون دفاعی اخراجات بڑھانے کا بہانہ بنے گا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، ڈی جی خان کے شہید اور پلوامہ کے ہلاک سیاسی اکھاڑے پچھاڑ میں کسے یاد رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔

میں تو جب تک چار پانچ گندے لطیفے نہ سنا لوں اور گھٹیا فقرے نہ کس لوں، کام شروع نہیں کر پاتا اور اب تو خبرناک کے سارے دوستوں پر یہ راز افشا ہو چکا ہے۔ کوئی بات نہ بن رہی ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ کچھ دیر گندی باتیں کر لیں اور یہ حربہ کارگر ثابت بھی ہوتا ہے ( خبرناک سے چڑنے والوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ یہ پروگرام کئی برس سے مسلسل نمبر ون ہے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود نمبر ون ہے۔ اللہ کس کی محنت کو رائیگاں جانے نہیں دینا بشرطیکہ نیک نیتی شامل ہو) خیر!

مودی صاحب فرماتے ہیں کہ رافیل ظیاروں کی کمی محسوس ہوئی۔ مودی صاحب! آخر رافیل طیارے پیسوں سے آتے ہیں کوئی مفت میں تو آنے نہیں تھے جو کمی محسوس ہوئی۔ بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نندن کی واپسی جیت ہے تو بھائی اس کو سلیوٹ بھی تو کرتے وہ تو آپ یوں لے کر گئے جیسے گھر سے بھاگی لڑکی کو واپس لاتے ہیں۔ نہ نکال سکو اور نہ رکھ سکو۔ کیا اچھی بات کہی ارندھتی رائے نے کہ تین کلو بیف تو جھٹ پٹ پکڑ لیتے ہو تین سو کلو آر ڈی ایکس نہیں پکڑا گیا۔

اچھا مجھے آر ڈی ایکس بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک دم ساون کے جھولے پڑ جاتے ہیں، رینا بیت جانے کا خیال کوند آتا ہے، آنکھوں میں مہکے ہوئے راز مچلنے لگتے ہیں، وادیاں اپنا دامن لگنے لگتی ہیں اور رم جھم ساون گرنے لگتا ہے۔ آر ڈی ایکس سے آ ر ڈی برمن یاد آتا ہے اور پھر کیوں نہ ذہن میں، ”کیا جانو سجن ہوتی ہے کیا غم کی شام“ کلبلانے لگے۔ اس وقت تو بھارت کا سونا بھی آپ کو مٹی لگے گا لہذا ہم دوبارہ جنگی جنون اور اس سے پیدا ہونے والے خبط عظمت کی بات کرتے ہیں۔

جی ہاں! خبط عظمت ہماری حکومت کے سپوتوں میں جو اللّٰہ کے بعد عمران کو سب سے بڑا گردانتے ہیں۔ بھئی ہینڈسم تو وہ ہے اور داد و تحسین کے ڈونگرے بھی ان پر برسائے جا رہے ہیں لیکن شیخ رشید نے مزا کرکرا کر دیا۔ کم بخت نے کہہ دیا کہ عمران نے فوج سے پوچھ کر نندن کو چھوڑا ہے۔ ذرا سیاسی تدبر کا مزا تو لینے دیتا لیکن کیا کریں چپڑ قناتی ہمیشہ چپڑ قناتی ہی رہتا ہے۔ کرتار سنگھ بارڈر پر شاہ محمود قریشی نے گگلی کہہ کر مزا کرکرا کر دیا تھا۔

بھئی چاہے فوج کہ ہی اجازت سے ہوا لیکن تاریخ تو عمران کے فیصلے سے یاد کرے گی نا اور تاریخ بننے میں کون سا دیر لگتی ہے لیکن یہ بہت بری بات ہے کہ اگر کسی فیصلہ پر مبارکباد ملے تو کریڈٹ فوج کو اور اگر دشنام طرازی ہو تو ملعون عمران حکومت۔ ویسے خان صاحب کو اس وقت ایس باتوں سے فرق نہیں پڑتا جب تک ان کی ورزش کے معمولات خراب نہ ہوں اور باقی عیاشیاں تو وہ وزیر اعظم بنتے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

جھٹ پٹ فیصلوں پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ کسی نے کہا اے ہندوستاں والو! ڈرو اس وقت سے جب منڈی بہاوالدین والے ڈاکٹر دہلی میں بیٹھ کر کہیں گے، ”اینوں لاہور لے جاؤ“۔ ایک بات جو سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہی ہے وہ یہ کہ مودی کو جنگ کا تجربہ خان صاحب سے زیادہ نہیں کیونکہ مودی تو پہلے ہی اوور میں رن آؤٹ ہو گئے تھے اپنی بیوی سے جبکہ خان صاحب دو کو پویلین بھیج چکے ہیں اور ایک اننگ بغیر کسی نقصان کے جاری ہے۔

ویسے میرا دل بہت برا ہوا ہے ثانیہ بھابی کا ٹویٹ دیکھ کر جس میں انہوں نے نندن کی بہادری کے گن گائے ہیں۔ میرا دل اور حقائق تو یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے نندن کو ماموں بنایا ہے۔ پتہ نہیں ثانیہ بھابی کو نندن میں آخر بہادری نظر کیا آئی ہے۔ سالا ٹارگٹ تو یوں ڈھونڈتا رہا جیسے بہن کو عیدی دینے آیا تھا۔ بھارتی فضائیہ کو تو اس کی مونچھیں دیکھ کر ہی روک لینا چاہیے تھا کہ کہیں مونچھیں ہی راڈار میں نہ پھنس جائیں۔

خان صاحب کے لئے نوبل انعام کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ نوبل انعام کی رقم تو ظاہر ہے ڈیم فنڈ میں ہی جائے گی کیونکہ ڈیم فنڈ پر منجمد جذبات بھڑکانے کے لئے فیصل جاوید ایک گیت تیار کروا رہے ہیں۔ انہوں نے شیرمیانداد کو خبرناک میں راشد گاتے سنا اور فدا ہو گئے۔ جنگ فنڈ کی ضرورت تو شاید نہ پڑے لیکن ڈیم فنڈ آپ کے جوڑوں سے بھی نکلوائیں گے حالانکہ ڈیم کی حفاظت کا وعدہ کرنے والا چوکیدار تو نجی محفلوں میں ان لوگوں کی چاپلوسیاں کرتا پھرتا ہے جنہیں وہ رعونت سے انصاف کے دربار میں بلایا کرتا تھا۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور کمینے لوگوں کے لئے تو ہمیشہ بدلتا رہتا ہے کیونکہ وہ اس کی بے رحمی کی تاب نہیں لا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).