چین انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں چاہتا


عمران خان اور نریندر مودی

چین انڈیا کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے۔ انڈیا کی سب سے لمبی یعنی 3500 کلومیٹر لمبی سرحد چین کے ساتھ ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سنہ 1962 میں جنگ بھی ہو چکی ہے جس مین انڈیا کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ سے موجود کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر کے معاملے میں بھی دونوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا، پاکستان 2001 میں جنگ کے دہانے سے کیسے واپس آئے؟

اپنی ہی فوج پر تو شک نہ کریں: نریندر مودی

اقتصادی راہداری کو افغانستان تک لے جانے کی خواہش

چین اور پاکستان کے درمیان دوستی تو ہے لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں چین نے کنارا کشی اختیار کرتے ہوئے ان جنگوں میں پاکستان کی فوجی مدد نہیں کی تھی۔

جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہوتا ہے تو چین کے ردعمل کا سب کو انتظار رہتا ہے۔ پاکستان کو امید رہتی ہے کہ چین کی ہمدردی اس کے ساتھ رہے گی۔ کشمیر کے بارے میں چین کا موقف رہا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعہ حل کریں۔

شی جنگ پنگ اور نریندر مودی

گذشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں 40 سے زائد پیرا ملٹری اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے بالاکوٹ میں کارروائی کی۔

اس کے بعد پاکستان نے لائن آف کنٹرول پار کر کے انڈیا کے ایک جنگی طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ اگرچہ پاکستان نے انڈیا کے پائلٹ کو رہا کر دیا لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1971 کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان پر اس طرح کا حملہ کیا ہے۔ دونوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر سے چین کی سرحد بھی ملتی ہے۔ چین کے انڈیا اور پاکستان کے ساتھ مختلف قسم کے تعلقات ہیں لیکن چین کے لیے کسی ایک کی طرفداری آسان نہیں ہے۔

چین کے پاکستان سے معاشی، سفارتی اور فوجی سطح پر قریبی تعلقات ہیں۔ دوسری جانب چین کو امریکہ سے تجارتی جنگ کا خطرہ ہے اور ایسے میں اسے ایک ممکنہ ٹریڈ پارٹنر کی تلاش ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان انڈیا کے خلاف F 16 طیارے استعمال کر سکتا ہے؟

’الیکشن کے لیے انڈیا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘

انڈیا جیسی ابھرتی ہوئی معیشت چین کے لیے ایک اچھی پارٹنر ثابت ہو سکتی ہے۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دور اقتدار میں متعدد بار چین بھی جا چکے ہیں۔

رواں ہفتے چین کی وزارت خارجہ نے انڈیا اور پاکستان سے تحمل سے کام لینے اور خطے میں امن کی صورت حال اور استحکام قائم رکھنے کے لیے کہا۔

شی جی پنگ اور عمران خان

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کشیدگی کے درمیان چین کے وزیر خارجہ کو فون کیا تھا اور انڈیا سے کشیدگی کم کرنے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے کہا تھا۔

اس فون کال میں چین کے وزیر خارجہ نے کہا تھا ’سبھی ممالک کو خود مختاری اور خطے کے اتحاد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ چین نہیں چاہتا ہے کہ کوئی ایسی کارروائی ہو جس سے قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے معیاروں کی خلاف ورزی ہو۔‘

سٹیو سانگ لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ سانگ نے سی این این سے کہا ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو اس سے چین کو کسی بھی سطح پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

سانگ کا خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر طویل عرصے سے جاری کشیدگی چین کے لیے کبھی بڑا مسئلہ نہیں رہی۔ اس کشیدگی کی وجہ سے چین اور پاکستان کی دوستی پر بھی کسی طرح کا اثر نہیں پڑا لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے جو تازہ صورت حال اختیار کی ہے وہ چین کے لیے بھی بے چینی کا باعث ہے۔

سانگ نے بتایا ‘چین کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جس سے یہ نظر آئے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے کچھ کر رہا ہے لیکن وہ پاکستان کی جانب اپنے جھکاؤ کو کم بھی نہیں کرنا چاہتا۔ چین یہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب اتنا چلا جائے کہ انڈیا پوری طرح امریکی اثرو رسوخ میں چلا جائے۔‘

انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں شدت پسندی کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور بالاکوٹ میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔

چین نے اپنے شمال مغربی صوبہ سنکیانگ میں اویغر مسلمانوں کے لیے بڑی سطح پر نظربندی کے کیمپ لگائے ہیں۔ یہ چین کی سب سے متنازع پالیسی ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت ہو رہی ہے۔ چین اسے صحیح قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ضروری قدم ہے۔

سانگ کا خیال ہے کہ ایسے میں چین انڈیا کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آ سکتا کیوں کہ چین خود بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ چین کے پاس بہتر راستہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان قیام امن کی بات کرے۔

ہان ہوا، پیکنگ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے امور کی ماہر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں چین کا خاصا دخل ہے اور امریکہ کا انڈیا میں اثر و رسوخ ہے۔

ہان کہتی ہیں ’دونوں ممالک کے لیے واضح پیغام ہے کہ امن قائم رکھیں۔ جنوبی ایشیا میں استحکام ہی چین کے حق میں ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ اس پر اثر پڑے۔‘

چین گذشتہ کئی برسوں سے جنوبی ایشیا میں توازن بنانے والی پالیسی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ خطے میں کشیدگی کے ماحول میں وہ اپنے معاشی مفادات حاصل نہیں کر سکتا۔

سنہ 2017 جولائی میں چین اور انڈیا کے درمیان مہینوں تک کشیدگی کا ماحول رہا۔

دونوں ممالک کی فوجیں مہینوں تک آمنے سامنے رہیں لیکن اپریل سنہ 2018 میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان غیر سرکاری طور پر ملاقات سے پہلے ایک مثبت قدم سامنے آیا اور کشیدگی ختم ہوئی۔

چین کے سرکاری اخبار ڈیلی چائنا کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

چین، پاکستان کا تاریخی طور پر دوست رہا ہے۔ پاکستان چینی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ تھنک ٹینک سی ایس آئی ایس کے مطابق سنہ 2008 سے 2017کے درمیان پاکستان نے چین سے چھ ارب ڈالر کے ہتھیاروں کا سودا کیا۔

ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان مسلسل چین کے قرض میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے لیے چین اہم ہے اور انھیں لگتا ہے کہ پاکستان کو غربت سے آزاد کرنے کے لیے چین کی مدد اہم ہے۔

پاکستان اور چین دوست ضرور ہیں لیکن ماضی میں انڈیا کے خلاف جنگوں میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دور میں پاکستان پر امریکہ کا زبردست اثر و رسوخ تھا اس لیے پاکستان نے کنارا کشی اختیار کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp