بائیں بازو کے خواب


میں اپنی زندگی میں پہلی بار جس بڑے آدمی سے ملا وہ عابد حسن منٹو ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں کا خانیوال میں ایک اکٹھ تھا اور سب لوگ ہمارے گھر چائے پینے آئے تھے۔ ، تارا یونین والے مرزا ابراہیم صاحب، حبیب جالب صاحب، جناب نعیم شاکر، سیف الملوک صاحب اور سی آر اسلم صاحب بھی تھے۔ منٹو صاحب کی آنکھوں سے ٹپکتی ذہانت، متانت اور باوقار انداز گفتگو نے مجھے بہت متاثر کیا اور یقین کیجیے مجھے پہلی بار اپنے سوشلسٹ ہونے پر فخر محسوس ہوا ورنہ سوشلسٹ ہونا تو گویا ایک کلنک تھا یعنی سکول ہو یا کرکٹ گراؤنڈ، ٹیوشن سنٹرز ہوں یا نئے دوستوں کی آزمائش ہر طرف ہم سے پہلے ہمارے افسانے گئے اور یہ سارے افسانے رسوائی کے تھے۔

”تم لوگ جب مر جاتے ہو تو جنازہ ہوتا ہے؟ “، ”سب روزے رکھتے ہیں تو تم کیا کرتے ہو؟ “، ”جب دل دکھتا ہے تو کسے پکارتے ہو؟ “، ”اسلامیات کیسے پڑھ لیتے ہو“، ”انقلاب نے خود ہی آنا ہے تو تم اپنی عاقبت خراب کیوں کرتے ہو؟ “، ”شادیاں کرتے ہو یا ویسے ہی کام چلا لیتے ہو“، ”مذہب کے خانہ میں کیا لکھتے ہو؟ “، ”اپنے مردوں کو دفناتے ہو یا کچھ اور کرتے ہو“، ”نام مسلمانوں والا کیوں رکھا ہوا ہے؟ “، ”روس سے اتنی محبت ہے تو وہاں دفع کیوں نہیں ہو جاتے؟ “۔

غرض یہ کہ طرح طرح کے احمقانہ سوال ہوتے تھے۔ پہلے پہل تو اپنے والد ( جو کٹر سوشلسٹ اور باقاعدہ ملحد تھے اس زمانے میں ) سے راہنمائی لے کر سمجھانے کی کوشش کرتا کہ ہم لوگ صرف سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف ہیں اور یہ کہ کوئی بھی معاشرتی قدر حتمی نہیں ہوتی، موضوع معروض پر منحصر ہوتا ہے، انسانی محنت کے استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جو قدیم اشتراکیت کے بعد سے رائج ہے لیکن وہ ساری بات سن کر کہتے، ”چھڈو یار اے دیوبندی نیں“۔

ایسے میں ڈیفنس میکانزم کے طور پر میں نے مذہبیت اور مذہبی منافقت کا مذاق اڑانا شروع کر دیا جس سے وہ قدرے کنفیوژن کا شکار ہوئے۔ منٹو صاحب سے بہت سے ملاقاتیں رہیں اور ہمیشہ علم حاصل کرنے کی ترغیب ملی۔ انہیں کے پاس کلب علی شیخ بھی ہوا کرتے تھے اور یہ لوگ بس کتابیں پڑھنے پر زور دیا کرتے تھے۔ جب میں پروگرام الف کر رہا تھا تو سوچا سی آر اسلم صاحب کو بلاؤں۔ ڈاکٹر قیس اسلم کے دروازے پر پہنچا تو دروازہ کھٹکھٹانے ہر بھی کوئی جواب نہ ملا کہ اچانک گلی کی دوسری نکڑ پر ڈاکٹر صاحب آتے نظر آئے اور وہ مجھے اونچی آواز میں کہہ رہے تھے، ”اوئے جا اندر۔ اوئے جا چلا جا یار“ لیکن میں دم سادھے کھڑا رہا۔

ڈاکٹر صاحب قریب آئے تو کہنے لگے، ”میں تینوں کہہ تے رہیاں ساں کہ جا اندر“۔ میں نے کہا ”ڈاکٹر صاحب میرا خیال تھا خاتون خانہ نہ ہوں“ تو ڈاکٹر صاحب نے تنک کر کہا، ”خاتون خانہ ہے سی پہلے۔ میں طلاق دے چھڈی جے“ اور یہ کہہ کر انہوں نے ایک کمرے کی جانب اشارہ کیا جہاں چند گھنٹیاں لگی ہوئیں تھیں۔ میں نے سی آر اسلم صاحب کا وہ وقت دیکھا ہوا تھا جب لکشمی چوک میں واقع سوشلسٹ پارٹی کے دفتر میں ان کی گھن گرج سے کامریڈز سہم جایا کرتے تھے۔ ان کے دستخطوں سے لوگ مشرقی یورپ اور روس پڑھنے جایا کرتے تھے۔

میں اندر داخل ہوا تھا تو سی آر صاحب نحیف و ناتواں اور چلنے پھرنے سے معذور ایک پرانے سے پلنگ پر لیٹے تھے۔ ایک پرانا ٹی وی سیٹ اور بغیر گدی کے کرسی پڑی تھی۔ آخری عمر میں بڑے بڑے سوشلسٹ روحانیت یا مذہبیت کی جانب مائل ہو جاتے ہیں لیکن سی آر اسلم آخری وقت تک ویسے ہی رہے۔ میں نے کہا جناب میں تو آپ کو ایک پروگرام میں دعوت دینے آیا تھا جہاں ہم ڈسکس کرنے جا رہے ہیں کہ کیا غربت مشیت ایزدی ہے؟

تو کہنے لگے، ”او کوئی ایزدی ہوئے گا تے مشیت ہووے گی نا؟ “۔ مجال ہے کہیں انسان سے یا انقلاب سے مایوس نظر آئے ہوں۔ کسی کا شکوہ کیا ہو یا اپنی حالت پر نوحہ کناں ہوئے ہوں۔ پرانے اخباروں کے نیچے سے دس روپے کا نوٹ نکالا اور کہنے لگے، ”جا یار اک سگریٹ اپنے لئی تے اک میرے لئی لے کے آ“۔ میں نے باہرکھڑے ڈرائیور سے گذارش کی کہ گولڈ لیف کا ایک پیکٹ لا دے۔ انہوں نے ایک سگریٹ پیا اور پیکٹ مجھے واپس کر دیا۔

میرے اصرار پر کہا کہ اگر پیکٹ پڑا رہا تو وہ مزید سگریٹ پئیں گے جو مناسب نہیں۔ میں نے پوچھا کہ روس کو ائیڈیلائز کر کے ہمارے سوشلسٹوں نے غلطی کی ہے تو کہنے لگے کہ کوئی قبلہ اول، دوم یا سوم تو بنانا پڑتا ہے ورنہ نظریہ تجربہ کی بھٹی میں سے نہیں گزرتا۔ میرے پوچھنے پر کہ سوشلسٹ اکٹھے کیوں نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ اکٹھے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ نظریاتی طور پر دیانتدار ہیں تو معروض آپ کو وقت آنے پر اکٹھا کردے گا بس اپنا اپنا کام کرتے جانا چاہیے۔

میں نے سی آر صاحب سے پوچھا کہ جناب ہمارا سوشلسٹ سرمایہ داری سے زیادہ مذہب کے خلاف لڑتے لڑتے ہلکان نہیں ہو گیا تو فرماتے ہیں مذہب، قوم پرستی اور جمہوریت جیسے شوشے حقیقی انقلاب کے راستے کی دیوار تھے اور سوشلسٹ اپنی بات ڈٹ کر اس لیے کہتے تھے کہ انہیں کسی رجعت پسند اپروچ پر محمول نہ کر لیا جائے۔ آمریتوں اور جمہوریتوں میں کوئی خاص فرق انہیں نظر نہیں آیا۔ وہ دونوں کو محنت کش طبقات کے خلاف ریاستی جبر کا ایک طریقہ سمجھتے تھے۔

میں نے پوچھا کہ جناب اب تو کلاسیکل محنت کش ہی نہیں رہا تو کسی کا استحصال کس کے خلاف ہے۔ کہنے لگے محنت کش ہر وہ شخص ہے جو اپنا محنتی وقت بیچ رہا ہے چاہے وہ جسمانی محنت کر رہا ہے چاہے ذہنی۔ یہ پوچھنے پر کہ ترقی پسند ادب نوے کی دہائی تک آتے آتے دم کیوں توڑ گیا تو کہنے لگے اج کے قاری کا پیٹ ذرا بھر گیا ہے اور پیٹ بھرنے کے بعد انسان کے موضوعات بدل جاتے ہیں۔ میرے پوچھنے پر کہ سارا دن کیسے گزارتے ہیں کہنے لگے خواب دیکھ کر۔ وہی خواب جس کی تعبیر کے لئے پہلے جسمانی طور پر کوشاں تھے اب کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).