نیلے رنگوں میں پولیس فریش فریش فیل کرے گی


آج کی تازہ خبر ”پنجاب پولیس کی وردی ایک بار پھر تبدیل کی جارہی ہے۔ اب گہرے نیلے رنگ کی پینٹ اور ہلکے نیلے رنگ کی قمیض پہنے نظرآئے تو ”ہلکا نئی لینے کا“۔ وجہ اب کی بار بتائی جارہی ہے کہ ان رنگوں میں پولیس فریش فریش فیل کرے گی۔ ناچیز کی ایک پرانی تحریر اسی پس منظر میں پیش خدمت ہے۔

”۔ ۔ بدلتی سوچ۔ “

خاکی پینٹ اور کالے، نیلے، سلیٹی عجیب بے نام اور بدنام سے رنگ کی قمیض پر حزب مراتب ٹوپی لگائے، کاندھوں پر پھول سینے پر تمغے سجائے ہمارے بہت مانوس پولیس والے جیسے ہر منظر کا لازمی حصہ تھے۔ بہت کچھ فلموں، ڈراموں میں دیکھا ولن کے مدد گار کے روپ میں یا خود ہی ولن پھر ”اندھیرا اجالا“ ڈرامہ نشر ہوا (پی ٹی وی تقریباً مرحوم ) سے۔ پولیس کا بہت اچھا تاثر قائم ہوگیا ذہنوں پر۔ اخباروں، رسالوں میں پڑھا پولیس والوں کی رشوت خوری، ظلم بربریت ک بارے میں۔ گاہے کہیں ایک آدھ تعریف بھی سننے کو مل جاتی تھی۔ لیکن زیادہ تر ولن کے روپ میں ہی دیکھے گئے۔

مجھے ایک کانسٹیبل صاحب یاد ہیں جو سائیکل پر چھوٹی چھوٹی دو بچیاں بٹھائے سکول کی چھٹی کے وقت نظر آتے۔ ان کی بیگم سکول میں استانی تھیں۔ کانسٹیبل صاحب کی پینٹ کا خاکی رنگ کثرت استعمال سے میل خورہ پیلا سا ہوچکا تھا۔ میں سوچتی کیا یہ وہ پولیس ہے جس کے بارے میں اردو زبان کی ساری بری لغت استعمال کی جاتی ہے۔ بچیوں کی گھسی ہوئی وردیاں، بستوں کی جگہ کپڑے کے تھیلے اور ستے ہوئے چہرے بتاتے تھے کہ وہ زندگی کو جھیل رہی ہیں۔ پھر ہائی ویز پر سفر کے دوران رات گئے ایک پولیس والا نظر آتا جو لالٹین اور ڈنڈے سے مسلح دھند آلود سرد رات میں جب سردی لہو جماتی ہے یا گرمی زندہ سجی بنانے پر تلی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے قانون کا واقعی نفاذ ہوتا۔ اور وہ قانون شکنوں کے لئے عوام کا رکھوالا ہوتا۔

کئی ایک جاپانی سومو پہلوانوں سے مقابلے پر تلے پولیس والے بھی دیکھے جو وردی سے باہر گرے جارہے ہوتے۔ ایک سوکھے لامبے ایس ایچ او صاحب ”اللہ بچائیو چوہدری“ اے بی سی ”“ بھی تھے والد صا حب کے عزیز دوست شطرنج فیلو جو ”سڑک سڑک“ کی آواز سے بے تحاشا چائے پیتے تھے۔ خانساماں جی کے ماتھے پر ان کو دیکھتے ہی بے تحاشا بل پڑجاتے۔ پتہ نہیں جب جرائم کم ہوتے تھے جو وہ گھنٹوں شطرنج کی بازیاں جماتے۔ پولیس کی وردی دیکھ کر پولیس والے کے کوئی ایکشن لئے بغیر ہی قانون کا نفاذ ہوجاتا۔

پھر اچانک ایک ان دیکھا ہاتھ نمودار ہوا اور بے چاری پنجاب پولیس کی صدیوں پرانی وردیاں اچک کر لے گیا۔ ان کی جگہ مینڈک اور مگر مچھ کی کھال سے قریب کسی رنگ کی سفاری سوٹ نما وردی نے لے لی۔ رعب اور دہشت تو نہ جانے کدھر گئی الٹا ڈاک بابو سے لگنے لگے۔ اب ڈاک بابو کا تو انتظار ہوتا ہے ڈرا تو نہی جاتا نا۔ عوام زیادہ سے زیادہ کسی پرائیویٹ ایجنسی کے گارڈ سمجھی ہوگی۔ کئی پولیس والوں کو تو شاید خود بھی یقین نہی آیا۔ کچھ جھکے جھکے معطل شدہ سی چال چلتے نظر آنے لگے۔

کسی ٹی وی پروگرام میں حکومتی ایم پی اے بتاتی نظر آئیں کہ پولیس کی سوچ تبدیل کرنا ہے جس کی ابتدا وردی بدلنے سے کی جارہی ہے اچھا بھئی کردیکھو یہ بھی۔

فیض صاحب یاد آگئے ”ہم دیکھیں گے“ ہم دیکھیں گے ”

آج ایک اخباری تراشہ سوشل میڈیا پر گردش کرتا نظر آیا کہ پنجاب پولیس کی وردی واپس پرانی والی کی جانے پر غور فرمایا جارہا ہے۔ کیونکہ عوام کو یقین نہیں آتا کہ یہ ڈاکیا ہے، بہروپیا ہے یا کسی کا ذاتی گارڈ۔ اور وہ ان کا رعب ماننے کو تیار نہیں۔

پولیس والوں سے بہت معذرت کے ساتھ کیونکہ اس سب میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ جب پولیس کو تیار ہی صاحبان اقتدار کی ذاتی حفاظت اور خدمت کے لئے کیا جائے گا تو وہ اسی طرح عوام کے ڈنڈوں اور پتھروں کے آگے بے بس بھاگتے نظر آئیں گے چاہے وہ مذہبی جماعتوں کے جان سے بے پرواہ ارکان ہوں چاہے وکیل اور چاہے اساتذہ اور طالب علم۔

اب پولیس کو جو مرضی پہنائیں۔

اس ادارہ کی واقعی سوچ بدل چکی ہے مبارک باد کے مستحق ہیں پلاننگ کرنے والے لیجئے گوادر سے کراچی تک اور محکمہ تعلیم سے پولیس تک سب کی سوچ بدلنے کی کوشش کامیابی کی طرف گامزن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).