ہمارا کریش کرتا ہوا ہوائی جہاز اور معصوم حاجی


اپنا سامان چھوڑ دیں
دروازے کی طرف آئیں
جہاز سے باہر نکلیں
جہاز سے نکل کر دور چلے جائیں

یہ وہ سارے جملے تھے جو میں اپنے ذہن میں اس وقت دہرا رہا تھا جب جہاز نقطہ پرواز پر پہنچ کر پوری قوت سے رکنا شروع ہو گیا۔ جہاز کا انجن نمبر 1 کسی غریب پرندے کا قیمہ بنانے میں مصروف عمل تھا اور جہاز کے تین ٹائر اسے روکنے کی کوشش میں جان ہار چکے تھے۔ ہنگامی حالات سے بچ نکلنے اور مسافروں کو ان سے نکالنے کی ساری تربیت دماغ میں گھومنے لگی اور اچھا خاصا چکرا گئی۔ ایک کونے سے یہ آواز بھی آئی کہ بیٹا آج تو لگ پتہ جائے گا۔

اگر یہ کوئی فلم ہوتی تو دس پندرہ فٹ دور سے کیمرہ تیزی سے حرکت کرتا ہوا سیدھا میری پھٹی ہوئی۔ آنکھوں کا کلوز اپ لیتا اور پھر میرے وحشیانہ صوتی اثرات کو فلم بند کرتا یعنی وہ کمانڈ جو اس حالت میں مسافروں کو دی جاتی ہے کہ ”آگے کی طرف جھک جائیں، آگے کی طرف جھک جائیں“۔ میری نشست بالکل مسافروں کے منہ کے سامنے تھی یعنی کے فیسنگ پیسنجرز۔ میں اور دوسری طرف بیٹھا ہوا میرا ساتھی پوری قوت سے چلا رہے تھے ”آگے کی طرف جھک جائیں، آگے کی طرف جھک جائیں“۔

کیونکہ کسی بھی طرح کے خطرناک جھٹکے سے بچنے کے لئے یہ حفاظتی پوزیشن بہت اہم ہوتی ہے جس کو عرف عام میں بریس پوزیشن بھی کہا جاتا ہے۔ صورتحال یہ تھی کہ میں اپنی نشست میں پیچھے کی طرف دھنستا جارہا تھا اور مسافر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھکتے جا رہے تھے لیکن خود نہیں جہاز کی بریکس کے دباؤ کی وجہ سے۔ سب کے چہرے پر اس طرح کے تاثرات تھے کہ جیسے ان کو کوئی بات سمجھ نہ آ رہی ہو یعنی ماتھے پر سلوٹیں ڈالے میری چیخ پکار کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اس کی وجہ؟ وہ میں بتاتا ہوں آپ کو، جہاز پر قریبا 400 مسافر تھے اور سارے زائرین حج جن میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں نے احرام باندھ رکھا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جس نے پہلے کبھی جہاز پر قدم تو کیا قریب سے دیکھا بھی ہوگا۔ 99 فیصد ان لوگوں میں وہ شامل ہوتے ہیں جو پہلی اور آخری بار جہاز کا سفر کرتے ہیں۔ گاؤں اور دیہات سے آئے ہوئے ان لوگوں کے سوالات معصومانہ اور عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ ایک صاحب جہاز کے جملہ ہائے بیت الخلا کی چھان بین کرنے کے بعد ہمیں مرکزی کمیٹی برائے بیت الخلا کا امیر سمجھ کر ہائے ہائے کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ اس جہاز پر سارے انگریزی بیت الخلا کیوں ہیں دیسی بیت الخلا کیوں نہیں۔

عرض کی کہ حضور کمپنی اسی طرح جہاز بنا کر بیچتی ہے، کہنے لگے یہ بالکل غلط بات ہے ہم ہمیشہ سلیپر میں سفر کرتے ہیں اور وہاں دونوں طرح کے بیت الخلا ہوتے ہیں۔ ہم نے جھٹ سے ایک کاغذ قلم پکڑا اور اس پہ کچھ لکھا پھر ان کو تسلی دی کہ آپ بے فکر رہیں ہم بوئنگ کمپنی کو لکھ بھیجیں گے کہ آئندہ جہاز پر اگر دیسی بیت الخلا نہ بنائے تو ہم آپ سے جہاز نہیں لیں گے۔ ایک صاحب دوران پرواز پوچھنے لگے کہ بیٹا جہاز ہوا میں کھڑا کیوں ہے چل کیوں نہیں رہا۔ کافی عرق ریزی کے بعد ان کو سمجھا پائے کہ ان کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جہاز ایک جگہ پر کھڑا ہے۔

ایک اور حضرت دوران پرواز تشریف لائے اور کہنے لگے بھائی باہر بارش ہو رہی ہے جہاز کو کوئی خطرہ تو نہیں۔ اس وقت رات کے تین بج رہے تھے ایک لمحے کو تو میں بھی گڑبڑا گیا کہ پینتیس ہزار فٹ پر کون سی بارش ہو رہی ہے۔ عرض کی کہ جناب ایسا ممکن نہیں۔ لبیک اللہم لبیک کا ورد کریں اور اپنی نشست پر جاکر حفاظتی بند کس کر باندھ لیں، بارش ہو بھی گئی تو آپ کا کچھ نہ بگاڑ پائے گی۔

خیر بات ہورہی تھی ہنگامی حالت کی، جہاز رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ ہزاروں ٹن وزنی جہاز ہوائی اڈے کی آخری دیوار کو بھی توڑتا ہوا آبادی میں جا گھسے گا۔ انگریزی کی ایک کہاوت ”ignorance is bliss“ مجھے اس صورتحال پر پوری طرح اترتی نظر آ رہی تھی۔ وہ ایسے کہ میں اس وقت تقریبا 120 سے زائد مسافروں کو بیٹھے ہوئے بیک وقت دیکھ سکتا تھا۔ ان میں سے کسی کے وہم و گماں میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جہاز کو کوئی ہنگامی حالت درپیش ہو سکتی ہے۔

یا یہ کہ اگر ہنگامی اخراج ضروری ہوا تو جان بچانے کے لیے احرام کو سمیٹتے ہوئے جہاز کے دروازے سے نکلی ہوئی ربڑ کی سلائیڈ پر پھسلتے ہوئے نکلنا پڑے گا۔ ہماری چیخ پکار سن کر کافی لوگوں کی تسبیح تو رک گئی لیکن ان کو سمجھ پھر بھی نہ آئی کہ ہم چیخ چیخ کر آگے کی طرف جھکنے کے لئے کیوں کہہ رہے ہیں۔ خیر جہاز رکا، عملے نے حفاظتی بند کھلوائے اور مسافروں کو بیٹھے رہنے کے لئے کمانڈ دیں۔ بیٹھے تو وہ پہلے ہی ہوئے تھے، ایک مسافر بھی اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔

حالانکہ اپ نے نیشنل جیوگرافک کی بہت ساری ڈاکیومنٹریز میں دیکھا ہوگا کہ ہنگامی حالت کے دوران مسافر پریشانی میں کیا کیا نہیں کرتے۔ خاص طور پر اگر زیادہ پڑھے لکھے لوگ ہوں تو غدر کی سی کیفیت ہوجاتی ہے۔ ہر کوئی اپنا سامان نکالنے کے چکروں میں ہوتا ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ اس کے برعکس یہاں ٹھنڈ پروگرام تھا، ہمارے ہاتھوں کے طوطے چڑیاں مینائیں سب اڑ چکے تھے، اطباق چہاردہ کے بلب ایک ایک کرکے پھٹتے جا رہے تھے لیکن زائرین حج اتنے سکون میں تھے کہ جیسے جہاز محو پرواز ہے۔ ایک سوال داغا گیا کہ بھائی جان جہاز اڑ گیا ہے یا رک گیا ہے۔ سب لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید جہاز میں اسی طرح ہوتا ہے پہلے یہ لوگ خوب شور مچاتے ہیں اور اس کے بعد کھانا دیتے ہیں۔ شور تو ان سب نے خوب مچایا ہے بس اب کھانا آیا کہ آیا۔

مجھے ہنگامی حالت پیدا ہو جانے کی صورت میں جہاز سے نکلنے کے لئے ایک دروازہ تفویض کیا گیا تھا۔ تربیت کے مطابق میں نے پورا طریقہ کار دہرایا۔ کھڑکی سے باہر دیکھا کہ آگ تو نہیں لگی ہوئی، اگر کھولنا پڑا تو باہر نکلنے کے لئے محفوظ ہے۔ ذہن میں دروازے کا نمبر دہرایا اور کپتان کی کمانڈ کا انتظار کرنے لگا۔ شکر خدا کا کہ ہنگامی اخراج کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کپتان نے اعلان کیا کہ واپس ہوائی اڈے کی طرف جا رہے ہیں۔ جہاز تبدیل ہوگا اور پھر مسافروں کو دوسری پرواز کے ذریعے جدہ بھیجا جائے گا۔

حاجیوں کو حج سے متعلق معلومات دینے والے اداروں اور کمیٹیوں سے درخواست ہے کہ دعاؤں اور مناسک حج کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ سب لوگوں کو تھوڑا بہت جہاز کے سفر کے متعلق بھی آگاہی دیں۔ خصوصی طور پر ہنگامی حالات کے بارے میں ایک چھوٹا سا کورس ضرور رکھا جائے کیونکہ نامساعد حالات ہوٹل میں بھی درپیش ہو سکتے ہیں۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal