چست پائے جامہ اور سست لڑکے


بے شک پجاما تو پجاما ہی ہوتا ہے، چاہے چست ہو یا سست۔

یہ کہانی ایک نیک و معصوم طالب علم کی ہے جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے اور پہلے دن اپنی یونیورسٹی میں تیار ہو کر پہنچ جاتا ہے۔ اندر داخل ہونے کے بعد پہلی بار اپنی یونیورسٹی کا نظارہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہا ہوتا ہے مگر اچانک معصوم کی نظر جینس، چست پجامے، اور بغیر بازو کے لباس میں ملبوس طالب علموں کی طرف پڑ جاتی ہے اور بےچارہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور سیڑھیوں سے نیچے گر جاتا ہے۔

بیچارا معصوم ہمت کرتے ہوئے زخمی حالت میں اپنے کلاس روم پہنچتا ہے تو اپنے سامنے ایک اور چست پجامہ میں ملبوس عورت کو پاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنا زخم بھول جاتا ہے اور کافی حد تک اپنے حوش و حواس بھی کھو بیٹھتا ہے جس کے باعث امتحانات میں معصوم کو کامیابی حاصل کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔

معصوم چھٹی ہوتے ہی اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہوکر گھر کے لئے روانہ ہو جاتا ہے مگر غلطی سے ایک بار پھر سڑک پر چلتی ہوئی چست پجامے اور بغیر بازو کے لباس میں ملبوس خاتون کو غلطی سے دیکھ لیتا ہے اور پھر اپنی موٹر سائیکل کھمبے پر دے مارتا ہے اور بیچارا زخمی ہوجاتا تھا ۔

ایسے معصوم اور پریشان کن طالب علموں کے لیے لاہور کی نامور یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے فہاش طلبا کے لیے نیا ڈریس کوڈ جاری کرتے ہوئے طالبات کے چست پاجامے اور جینز پہننے پر پابندی عائد کردی گئی، جب کہ بغیر بازو والی قمیص بھی ممنوع قرار دی گئی ہے اور یونی ورسٹی کی حدود میں طالبات کیلئے دوپٹا اور اسکارف لازمی قرار دے دیا گیا، جبکہ نافرمانی کرنے کی صورت میں پانچ ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا گیا۔ اس نوٹیفیکیشن کا اطلاق گیارہ مارچ سے ہوگا۔

یہ فیصلہ ان معصوم، نیک اور کمزور دل طالب علموں کی خواہش پر کیا گیا ہے جو چست پجامے میں ملبوس لڑکی کو دیکھ کر سست ہو جاتے تھے۔ یہ بھی قدرت کا احسان ہے کہ اس نے انسان کے ہاتھ میں محدود اختیارات دیے ہوئے ہیں اور کچھ اختیارات صرف اپنے ہاتھوں میں ہی رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ ایسا قانون بھی عین ممکن تھا کہ پھیلتی ہوئی شدید فحاشی کے باعث تمام عورتیں اپنے چند جسمانی اجزاء گھر کی الماری میں رکھ کر گھر سے باہر جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).