چوہان، ”سچ کا سفر“ اور وزیراعظم کی ٹویٹ


فیاض چوہان کو ہٹانا خود تحریک انصاف کے حق میں بھی ہے۔ ایسے اور بھی ہیں جو پارٹی اور حکومت پر بوجھ ہیں۔ یہ بوجھ اتار پھینکیں گے تو ان کی کشتی کم از کم بہتر چلے گی۔ ڈوبنے کی کوئی فکر ان کو نہیں۔ کہ سیاسی ناؤ کے تیرتے رہنے کا انحصار اس بات پر ہے ہی نہیں کہ بوجھ کتنا ہے اور کھیون ہار کتنا تگڑا یا تجربہ کار ہے۔ یہاں جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔ بیس کروڑ کب پیا بن پائیں گے، کون بتا سکتا ہے؟ ہاں البتہ چوہان سے نادان اور زبان پر قابو نہ رکھ سکنے والوں کے ہم رکاب ہونے کی صورت میں سفر کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے اور لوگ ٹھٹھا بھی اڑاتے ہیں۔ اس لئے اس پر حکومت اور پارٹی کے ہمدردوں کو مطمئن ہونا چاہیے۔

ایک بات کی البتہ سمجھ نہیں آئی۔ ان لوگوں کو تو مطمئن ہونا چاہیے جو چوہان کی بیہودہ گوئی پر اعتراض کرتے تھے۔ یقیناً یہ پہلا واقعہ نہیں، موصوف پیدائش سے ہی مطلب وزیر کے طور پر پیدائش یعنی حلف اٹھانے کے بعد سے ہی ایسی حرکتیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم ان لوگوں کے اظہار مسرت اور فخر کی سمجھ نہیں آ رہی جنہیں نہ کبھی وزیر موصوف کی کسی بیہودگی پر کوئی اعتراض ہوا، نہ انہوں نے اس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی، نہ انہوں نے حالیہ ہذیانی حرکت پر کسی بے چینی کا اظہار کیا اور جب عوامی ردعمل کے پیش نظر حکومت کے پاس چوہان کو ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تو اس استعفے کو عظیم لیڈر کا عظیم کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔

چوہان کا استعفیٰ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ نفرت انگیز بیان پر عوامی ردعمل اور اس کے نتیجے میں حکومت کے اس نرم ترین تادیبی اقدام سے بھی معاشرے، سیاست، ملک اور خود حکمران جماعت کے لئے اچھے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ تاہم وزیراعظم کی اصول پسندی کو اس کا سبب قرار دینا حقائق کے برعکس ہے۔ اگر اصول پسندی اس کا سبب ہے تو پھر فیصل واؤڈا کا استعفی بھی ساتھ ہی سامنے آ جاتا۔ یہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت میں اٹھایا گیا ایک سیاسی اقدام ہے جس کا مقصد سیاسی مقبولیت حاصل کرنا ہے۔ ضرور کریں، سب کرتے ہیں، لیکن خواہ مخواہ حاجی ثنا اللہ بننے کی کوشش تو نہ کریں۔

جیسے چار مارچ کو ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے معمول کے ریمارکس کو اخبارات نے نمایاں خبر کے طور پر شائع کیا کہ ”آج سے سچ کا سفر شروع، جھوٹی گواہی نہیں چلے گی وغیرہ وغیرہ“۔ پہلی بات تو یہ کہ چیف جسٹس صاحب کے مذکورہ ریمارکس سے کوئی ایسی خبر نہیں بنتی تھی جیسی اخبارات نے بنا دی۔ اس خبر کے شائع ہونے کی وجوہات میں سابقہ چیف جسٹس کے شوق خودنمائی، خبریں لگوانے اور میڈیا کا انتظار کر کے ریمارکس دینے کی روایات کا بھی دخل ہے کہ اخبارات مقدمات کی سماعت کے دوران ججوں کے معمول کے ریمارکس کو بھی جلی سرخیوں کی شکل میں شائع کرنے کو صحافت کا لازمہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔

(اس کی ایک بدیہی وجہ بہرحال ہمارے ذرائع ابلاغ میں مدیر کا کمزور پڑتا ادارہ ہے جس کی جگہ شعبہ اشتہارات اور مالکان کے بڑھتا کردار نے لے لی ہے، لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر علیحدہ سے اور کھل کر بات ہونی چاہیے۔ ) اور دوسری بات یہ کہ اس سے بننے والا تاثر بالکل غلط اور گمراہ کن تھا کہ جیسے آج سے پہلے تو جھوٹ کی اجازت تھی، آج عدالت عظمی نے اس کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔

وکلا کا تو خیر کام ہی یہ ہے اس لئے وہ بصراحت بتا سکتے ہیں کہ کہ قانون شہادت اس حوالے سے کیا کہتا ہے اور یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جو چیف جسٹس نے ابھی متعارف کروائی ہے۔ نہ ہی یقینا چیف جسٹس صاحب کے وہم و گمان میں یہ بات ہو گی کہ ان کے ریمارکس کو ایک بڑی خبر بنا کر پیش کر دیا جائے گا۔ یہ بات تو قانون کی واجبی سمجھ بوجھ رکھنے والا عام فرد بھی بتا سکتا ہے جھوٹی گواہی ہمیشہ سے ہی ایک جرم ہے۔ پوری شرح صدر یہ سے بتانے کے لئے قانون کی کتاب کا مطالعہ کرنا نہیں بلکہ فہم عامہ یعنی کامن سینس کا مالک ہونا کافی ہے کہ جھوٹی گواہی ایک جرم ہے۔

علاوہ ازیں اگر چار مارچ سے ”سچ کے سفر کا آغاز“ واقعی اس لحاظ سے اتنی بڑی خبر ہے کہ چیف جسٹس کے اعلان کے بعد آئندہ سے جھوٹی گواہی کا باب ہر چھوٹی بڑی عدالت میں بند ہو جائے گا تو کیا انصاف کی تلاش میں در در بھٹکتے لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ جناب اگر چیف جسٹس کے ایک اعلان سے نظام انصاف کے اس ناسور کا قلع قمع ہو سکتا تھا جس کو ”جھوٹی گواہی“ کہا جاتا ہے تو پھر یہ نیک اور ضروری کام سابقہ چیف جسٹس صاحبان نے کیوں نہیں کیا؟

پتہ نہیں کیوں اور کتنے لوگ جھوٹے گواہوں کی وجہ سے عدالتوں کے ہاتھوں ان جرائم کی سزا بھگت رہے ہوں گے جو کرنا تو درکنار، انہوں نے سوچے بھی نہ ہوں گے؟ صاف ظاہر ہے کہ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے تھے جس میں ایک پولیس والے کی جھوٹی گواہی کے پیش نظر چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی کے عمل کی سنگینی اور اس حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کا ذکر کیا جسے کورٹ رپورٹرز لے اڑے اور اگلے روز کے اخبارات میں جلی خبریں شائع ہو گئیں۔

سونے پر سہاگہ تاہم یہ کہ جناب وزیراعظم صاحب کا فوراً خیر مقدمی ٹویٹ آ گیا۔ حالانکہ وہ مصروف بھی تھے ہندوستان سے جاری کشیدگی اور معاشی درماندگی کی کیفیت کو درست کرنے میں لیکن اس تاثر سے فائدہ اٹھانا نہیں بھولے اور ”سچ کے سفر“ کا خیر مقدم کرتے ہوئے چیف جسٹس کے شانہ بشانہ چلنے کے عزم بذریعہ ٹوئٹر اظہار کر دیا۔

تو اب سوال یہ تو بنتا ہے وزیر اعظم صاحب کہ کنٹینر پر دھاندلی کے بہتانوں، 35 پنکچروں، دس ارب کی پیشکشوں، آف شور کمپنیاں نہ ہونے کے بیانوں اور اس نوع کے ان گنت اور رنگا رنگ بے بنیاد دعووں اور الزامات سے لے کر روز سامنے آتے ایک سے ایک نئے تضادات تک جو جھوٹ جناب اور جناب کے چھوٹے بڑے چوہان ٹائپ مداح بول رہے ہیں وہ چیف جسٹس کے چار مارچ سے شروع ہونے والے ”سچ کے سفر“ میں جاری رہیں گے یا ان پر بھی پابندی ہو گی؟

اور اگر پابندی ہو گی تو کیا ہم توقع کریں کہ آپ نے جو لوٹے ہوئے دو سو ارب ڈالر باہر سے لانے تھے بقول مراد سعید، وہ اب ایک جھوٹ قرار دے کر ”قابل وصول قومی آمدن“ کی فہرست سے نکال دیے جائیں گے؟

کیا امید رکھی جائے کہ سچ کے نئے سفر کی وجہ سے مان لیا جائے گا کہ ہندوستان میں سابق نا اہل وزیراعظم کی فیکٹریاں صرف فیس بک پر بنوائی گئی تھیں اور اے آر وائی ٹائپ کے بھونپوؤں نے اس جھوٹ کو سر کے اشاروں پر ہوا دی تھی؟ (سر سے مراد وہ سر ہے جو شانوں پر گردن کے اوپر ٹکا ہوتا ہے اور اس سے اشارے کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے مراد کوئی ”سر جی“ نہیں )

سچ کے اس سفر میں کیا اب مان لیا جائے گا جناب وزیراعظم کہ نامزدگی فارم میں ترمیم کے عمل میں شمولیت اور پھر احتجاج، انتشار پھیلانے والے خادم رضوی کے احتجاج کی حمایت، شیخ رشید جیسے کرداروں کے ”محافظ ختم نبوت“ بننے کے ڈراموں کی پشت پناہی اور الیکشن مہم میں لاہور میں این اے 131 میں اپنی آخری ریلی میں بھی آپ نے جو مذہبی نفرت پر مبنی باتیں کیں وہ آپ کی نادانی، کم علمی یا دراصل غلط مگر آپ کے خیال میں آپ کا مذہبی جذبہ نہیں، الیکشن میں کامیابی کے لیے ایک زہریلا اور مکروہ ہتھکنڈہ تھا؟

جناب وزیراعظم سچی بات تو یہ ہے کہ چوہان اپنی بے قابو زبان اور نفرت انگیز بیان کی وجہ سے آپ کے گلے کا وہ محاوراتی چھچھوندر بن چکا تھا جسے نگلنے کی صورت میں کوڑھی ہونے کا ڈر اور اگلنے کی صورت میں شرمندگی کا خوف رہتا ہے، لہذا آپ نے اس سے استعفیٰ طلب کر کے ایک اچھی سیاسی چال چلی۔ اس چال کا نتیجہ یعنی چوہان کی رخصتی خوش آئند ہے لیکن کاش یہ رخصتی آپ کی اصول پسندی اور ماہیت قلب کی وجہ سے ہوتی تو جناب کی کابینہ اور صفوں میں موجود اس طرح کے دیگر کردار بھی رخصت ہو جاتے۔

یہ ”سچ کا سفر“ ٹویٹ تک ہی محدود رہتا نظر آتا ہے۔ بلکہ یہ سارا دھندا میرے جیسے لاعلم کو تو ایسے نظر آتا ہے جیسے ظریف لکھنوی کو درج ذیل مناظر نظر آئے تھے۔

وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

اے مرغ سحر ککڑوں کوں بول کہیں جلدی

تو بھی شب فرقت میں گونگا نظر آتا ہے

داڑھی کو تری واعظ سب دیکھ کے کہتے ہیں

وہ قصر تقدس کا چھجا نظر آتا ہے

باز آئے محبت سے اے عشق خدا حافظ

الفت میں جسے دیکھو اندھا نظر آتا ہے

کچھ تجھ کو خبر بھی ہے دیکھ آئنے میں صورت

اؤ ترچھی نظر والے بھینگا نظر آتا ہے

سوراج کے چکر میں رہتے تھے جو سرگرداں

ان لوگوں کو اب خالی چرخا نظر آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).