کوہستان وڈیو سکینڈل میں انصاف طلب کرنے والے افضل کوہستانی کو قتل کر دیا گیا


کوہستان

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں پولیس ذرائع کے مطابق کوہستان وڈیو سکینڈل میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ دائر کرنے والے افضل کوہستانی کو ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس واقعہ میں دو راہگیر بھی زخمی ہو گئے۔

موقع کے عینی شاہد محمد رحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کو رات ساڑھے آٹھ بجے شاہراہ قراقرم پر واقع انتہائی مصروف مقام گامی اڈے پر تین افراد نے کلاشنکوف سے فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہلاک ہو گیا۔

ایبٹ آباد تھانہ کینٹ پولیس نے اس موقع سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی جا رہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں افضل کوہستانی کا ایک قریبی رشتہ دار بھی شامل ہے جو کہ واقعہ کے وقت ان کے ساتھ موجود تھا۔

واضح رہے کہ افضل کوہستانی نے صوبہ خیبرپختونخوا کی پولیس کو اپنی جان کو خطرات لاحق کے حوالے سے باقاعدہ درخواستیں دی رکھی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

کوہستان ویڈیو: کیا اب انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے؟

کوہستان: خواتین کے لیے موبائل فون موت کی علامت

’غیرت‘ کے نام پر قتل اور میڈیا

’کوہستان قتل کیس میں فورنزک طریقہ کار استعمال کریں‘

افضل کوہستانی

بی بی سی کو اپنے آخری انٹرویو میں افضل کوہستانی نے کہا تھا کہ انصاف کے تقاضے اس وقت پورے ہوں گے جب قاتلوں کو سزا ملے گئی اور اس کے بعد آئندہ کوئی بھی کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل نہیں کرئے گا۔ اس وقت مجھے اور میرے اہل خانہ کو جان کا خطرہ ہے، ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ انٹرویو اس وقت کیا گیا تھا جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور ان کا مقدمہ درج کیا جائے۔

مقامی صحافی زبیر ایوب نے بی بی سی کو بتایا ’اپنے قتل والے دن افضل کوہستانی صحافیوں کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں کہ سپریم کورٹ میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کا قتل ثابت ہونے پر مذکورہ قبائل نے انھیں قتل کرنے کے لیے باقاعدہ سکواڈ ترتیب دیے ہیں اور یہ سب اطلاعات میں پولیس تک پہنچاتا رہتا ہوں مگر کوئی بھی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ ‘

پشاور سے انسانی حقوق کے کارکن قمر نسیم نے بی بی سی کو بتایا ’ افضل کوہستانی کوہستان کے انتہائی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان کوہستان میں ایک بڑا زمیندار گھرانہ سمجھا جاتا تھا مگر جب سے افضل کوہستانی نے کوہستان وڈیو سکینڈل پر بات کی ہے انھیں کوہستان میں ان کے آبائی علاقے پالس سے بے دخل کر دیا گیا جس کے بعد یہ خاندان پیسے پیسے کو ترس گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی کو قتل کے مقدمے میں بھی پھنسایا گیا تھا جس میں ایک سال سے زائد عرصہ قید کے بعد عدالت نے انھیں بری کر دیا تھا جس کے بعد ان کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی چھوٹی موٹی ملازمت تلاش کر رہے تھے جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

قمر نسیم کے بقول ’واقعہ سے دو دن قبل مجھے افضل کوہستانی نے فون کیا اور کہا کہ مجھے ملازمت چاہیے جس پر میں نے کہا کہ کچھ صبر کرو آپ کے لیے کوئی اچھی ملازمت دیکھتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ اچھی بری کی بات نہیں ہے مجھے کوئی بھی ملازمت چاہیے میں برتن اور کپڑے دھونے کا کام بھی کر سکتا ہوں، کچھ بھی کر سکتا ہوں، بے شک تنخواہ 10، 12 ہزار ہی کیوں نہ ہو کیونکہ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔‘

انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی کو جس طرح قتل کیا گیا یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس پر سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، انسانی حقوق کے کارکناں، پولیس اور حکومت کو سوچنا ہو گا کہ یہ کس طرح اور کیوں ہوا۔؟

قمر نسیم کے بقول افضل کوہستانی کی زندگی میں کبھی کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا یہاں تک کہ انسانی حقوق کی تنظمیں بھی آگے نہیں بڑھیں۔ وہ اپنی زندگی میں چتختے رہے، چلاتے رہے، کبھی کھبار کوئی فوٹو سیشن کے لیے ان کا ساتھ دیتا اور پھر انھیں تنہا چھوڑ دیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب سوال یہ ہے کہ اس قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ کس نے یہ قتل کیا اور کیوں یہ قتل ہوا؟ اس کا جواب کون دے گا؟۔

افضل کوہستانی کا ساتھ دینے والی انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا انتہائی مشکل لمحہ ہے۔

’ایک مشکل لمحہ وہ تھا جب کوہستانی وڈیو سکینڈل میں صاف نظر آنے کے باوجود بھی سپریم کورٹ نے کیس خارج کر دیا تھا اور پھر صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ لڑکیاں واقعی قتل ہوئیں، افضل کوہستانی کو چھ سال جدوجہد کرنی پڑی تاہم اب افضل کوہستانی قتل ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس پر بات کروں مگر انصاف کے لیے ہر ممکنہ جدوجہد کروں گئی چاہیے کوئی بھی نتیجہ کیوں نہ نکلے۔

افضل کوہستانی کون تھے؟

افضل کو ہستانی

افضل کوہستانی کا تعلق کوہستان کے ضلع پالس سے تھا۔ سنہ 2012 سے قبل افضل کوہستانی مانسہرہ کے ایک وکیل کے ساتھ کلرک کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور ساتھ میں وکالت کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ سنہ 2012 میں کوہستان وڈیو سکینڈل منظر عام پر لانے کے بعد ان کے لیے ملازمت اور تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کوہستان وڈیو سکینڈل منظر عام پر لانے کے بعد ان کے دو بھائیوں کو ان کے آبائی علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

افضل کوہستانی نے ان کی باقاعدہ دعوے داری کی تھی جسے ڈسرکٹ اینڈ سیشش جج داسو کوہستان نے پھانسی کی سزا سنائی تھی مگر سپریم کورٹ نے ان کو بری کر دیا تھا۔

اس کے بعد افضل کوہستانی اپنے دیگر خاندان سمیت صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کے علاقے الائی میں مقیم تھے۔ افضل کوہستانی نے دو شادیاں کر رکھی تھیں اور ان کے پانچ بچے تھے جبکہ وہ اپنے دو بھائیوں کے 13 بچوں کے کفیل تھے۔

مقامی صحافی نعمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ افضل کوہستانی نے باقاعدہ واٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا جہاں وہ اس قتل کے مقدمے کی تفصیلات بتاتے رہتے تھے اور اس گروپ میں انھوں نے بدھ کو آخری مرتبہ بتایا تھا کہ پشاور کوئی کورٹ، ایبٹ آباد بینچ میں نامزد ملزماں کی درخواست ضمانت پر پشاور ہائی کورٹ نے سماعت آٹھ مارچ تک ملتوی کردی ہے اور فریقین کے وکلا سے کہا ہے کہ وہ دوبارہ بحث کرئیں گے۔

کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل

افضل کوہستانی

مقامی صحافی محمد اشفاق نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2012 میں کوہستان میں ایک وڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں بظاہر اس وڈیو میں شادی کی ایک تقریب میں چار لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں اور دو لڑکے روایتی رقص کررہے تھے۔ اس وڈیو میں نظر آنے والے دو لڑکے افضل کوہستانی کے چھوٹے بھائی تھے جس پر افضل کوہستانی کو اندازہ ہوگیا کہ کوہستان کی مقامی روایات کے مطابق ان چھ لوگوں کی سزا صرف قتل ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا ’افضل کوہستانی ان چھ لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اس کیس کو میڈیا میں لے آئے۔ انھوں نے پہلے اپیل کی کہ ان چھ افراد کی جان بچائی جائے مگر بعد میں جب لڑکیاں قتل ہوئیں تو وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو کوہستان سے فرار کروا کر محفوظ مقام پر لے گئے۔ انھوں نے اکثر مجھے کہا تھا کہ میں لڑکیاں تو نہ بچا سکا مگر ان کے قتل میں ملوث افراد کو انجام تک ضرور پہنچاوں گا۔ افضل کوہستانی نے کئی مرتبہ کہا تھا کہ کوہستان میں آج تک کبھی بھی کسی نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف احتجاج نہیں کیا، مجھے پتا ہے کہ مجھے اس کی سزا ضرور ملے گئی اور پھر ایسا ہی ہوا۔‘

انسانی حقوق کے کارکن ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کوہستان وڈیو سکینڈل پہلا واقعہ ہے جس میں غیرت کے نام پر قتل پر کسی نے آواز بلند کی تھی۔

’یہ کوئی چھپا ہوا راز نہیں ہے کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے پہلے جرگے ہوتے ہیں اور ان میں جب فیصلہ ہوتا ہے تو کوئی بھی اس پر بات نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ باپ کے سامنے بیٹا قتل ہوتا ہے اور وہ خاموشی اختیار کرتا ہے۔ افضل کوہستانی پہلا شخص تھا جس نے یہ جرات کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے اعداد وشمار دینا تو ممکن نہیں مگر وہاں پر یہ عام بات ہے اور غیرت کے نام پر قتل کر کے لوگ خود کو بڑا اور خاص سمجھتے ہیں۔

بی بی سی نے ڈسڑکٹ پولیس افیسر ایبٹ آباد سے ان کا موقف کے لیے رابطہ قائم کیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل کیا ہے؟

افضل کوہستانی

خیال رہے کہ سنہ 2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کررہے تھے۔

ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کرکے قتل کر دیا گیا ہے۔

افضل کوہستانی کے اس دعوے کے بعد انسانی حقوق کارکنوں نے احتجاج کیا تھا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔

اس کمیشن کی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا گیا تھا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمیشن کی ممبر فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی استدعا عدالت میں دائر کردی تھی۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے پہلے خاتون جوڈیشنل افسر منیرہ عباسی کی سربراہی اور بعد ازاں سنہ 2016 میں اس وقت کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔

محمد شعیب کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے فارنزک تحقیقات کی تجویز دی تھی جس پر سرپم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی ریٹائر ہو جانے والے جج جسٹس اعجاز افضل کر رہے تھے نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشنل آفیسر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں مکمل تحقیقات کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔

جسٹس اعجاز افضل کے ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس سال کے ابتدائی دونوں مقدمے کی سماعت کی تھی جس میں خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور رپورٹ پیش کی تھی کہ لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور ان کو جلد پیش کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp