ترکی کا ناکام انقلاب ۔ سیکھنے کی چیز


\"ammar\"

ترکی میں فوجی انقلاب کی حالیہ ناکام کوشش مختلف حوالوں سے اور مختلف ذہنی سطحوں پر ہمارے ہاں بھی زیر بحث ہے اور حسب سابق ساری بحثیں اور تجزیے نفس واقعہ کی تفہیم میں کوئی مدد دینے سے زیادہ اپنے ہی ذہنی رویوں اور فکری سانچوں کو سمجھنے میں ہمارے لیے مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
اس ساری بحث میں غالب ترین رجحان تو، ہمارے قومی مزاج اور ماضی کی روایت کے عین مطابق، یہی ہے کہ اسے حق وباطل کا معرکہ تصور کرتے ہوئے خود کو باقاعدہ ایک فریق کے ساتھ نتھی کیا جائے اور اقصائے عالم کی لڑائیوں کو درآمد کر کے اپنے گلی کوچوں میں لڑا جائے۔ اس طرز فکر کی توجیہ محض اسلامی اخوت یا عالم اسلام کے امور میں دلچسپی وغیرہ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس کا گہرا تعلق اس ذہنی اضطراب اور فکری پریشانی سے ہے جو ہمیں خود اپنے قومی وجود اور اس کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے لاحق ہےاور جس نے فکری ہمتیں اتنی کمزور کر دی ہیں کہ تلخ حقیقتوں کو بطور امر واقعہ کے قبول کرتے ہوئے خود کو ایک صبر آزما جدوجہد کے لیے آمادہ کرنے کی صلاحیت معدوم سے معدوم تر ہوتی جا رہی ہے۔ نگاہیں کسی ایسے آسمانی اور معجزانہ حل کے لیے بے تاب ہیں جو تاریخ کی سطح پر جاری سلسلہ اسباب وعلل کو توڑ کر ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اپنے تناظر میں اپنے مسائل سے نبرد آزمانے ہونے کا کوئی نقشہ عمل ہمارے لیے زیادہ کشش نہیں رکھتا۔ ہم دنیا بھر میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں میں اپنے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں بھی کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہو، فوراً‌ متحارب فریقوں میں سے کسی ایک کے کیمپ میں شامل ہو کر کہانی کے کرداروں اور واقعات کا انطباق اپنی صورت حال پر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ رویہ دنیا اور خاص طور عالم اسلام کے معاملات میں دلچسپی سے زیادہ اپنی زمینی حقیقتوں سے ذہنی فرار کی ایک کوشش ہے اور بلاشبہ کوئی مستحسن نہیں، بلکہ ایک قابل علاج ذہنی کیفیت ہے۔
مذکورہ سطحی اور بچگانہ انداز نظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر اس واقعے کو ، بلکہ اس نوعیت کے حالیہ سبھی واقعات کو، زمینی صورت حال کے سمجھنے کا ایک ذریعہ تصور کیا جائے تو ہمارے سامنے ایک بہت اہم سوال آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک پچھڑی ہوئی اور مغلوب ومقہور قوم کو دنیا کے غالب نظام اقدار اور نظام طاقت کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت کیا متعین کرنی چاہیے؟ یہ ایک بہت بنیادی اور سنجیدہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت پیچیدہ سوال بھی ہے اور اس وقت مسلمان معاشروں میں پائی جانے والی گہری تقسیم بنیادی طور پر اسی سوال کے حوالے سے ہے۔ اس سوال کے فکری وتہذیبی ابعاد بھی ہیں اور سیاسی ومعاشی بھی۔ گویا کوئی بھی طبقہ اس سوال کے حوالے سے جو بھی پوزیشن لے گا، اس میں فکری وتہذیبی موقف کے ساتھ ساتھ سیاسی ومعاشی محرکات بھی کار فرما ہوں گے۔ ہمارے نزدیک اس نوعیت کی صورت حال میں اس امکان کو بطور مقدمہ ماننا ناگزیر ہے کہ دیانت داری کی ایک کم سے کم سطح کو برقرار رکھتے ہوئے دو بالکل متخالف اور متضاد نقطہ ہائے نظر وجود میں آ سکتے ہیں۔
ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی بعض واضح مثالیں بھی موجود ہیں۔ 1857ء کے واقعے کے بعد سرسید احمد خان اور ان کے مکتب فکر نے بالکل علانیہ، جبکہ بہت سے دوسرے طبقات نے نسبتاً‌ خاموشی اور کسی قدر تفاوت کے ساتھ صورت حال کا یہی تجزیہ کیا تھا کہ انگریزی اقتدار کی موافقت اور اس کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مسلمانوں کے سیاسی مفاد کے تحفظ یا ان کی قومی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ سرسید کی پیش کردہ نئی مذہبی فکر پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور اسے قبول عام بھی حاصل نہیں ہوا، لیکن ان کے سیاسی و تہذیبی موقف پر ، چند استثنائی اور غیر نمائندہ تنقیدوں کے علاوہ، ان کی دیانت یا قائدانہ مقام اور خدمات پر حرف رکھنے کی جسارت عموماً‌ نہیں کی گئی۔ اس کا لازمی مطلب ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں تھا، بلکہ دراصل یہ صورت حال کی پیچیدگی اور اس کے پہلو دار ہونے کا اعتراف تھا جس میں ایک سے زیادہ ، اور بالکل متضاد مواقف کا وجود میں آنا پوری دیانت داری کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔
اس فکری تقسیم کو وفاداری اور غداری جیسی اصطلاحات میں بیان کرنا ایک طرف تو اس ذہنی لچک کے فقدان کی نشان دہی کرتا ہے جو تبدیلی کے ایک بہت بڑے اور گہرے عمل کو معروضیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری ہے اور دوسری طرف بحث کو تقارب واشتراک کے دائرے کی طرف بڑھانے کے بجائے، جس کے سوا اس ساری صورت حال کا سرے سے کوئی عملی حل ہی موجود نہیں، تقسیم اور افتراق کو مزید گہرا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کوئی چارہ اس کے سوا نہیں کہ اس طرح کے فتووں کو ، چاہے کسی کو ان کی صداقت و واقعیت پر کتنا ہی یقین ہو، سینوں میں تھام کر رکھا جائے اور اپنے زاویہ نظر کی صداقت پر پورا اطمینان رکھنے کے ساتھ ساتھ اتنی ذہنی وسعت رکھی جائے جو اجتہادی معاملات میں رکھنا اسلامی فکری روایت کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہیے کہ داخلی نظریاتی یا سیاسی اختلافات کو اس طرح کے سیاہ اور سفید خانوں میں تقسیم کرنا جبر اور استبداد کو براہ راست جواز دینے کا موثر ترین ذریعہ ہے اور عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں جمال عبد الناصر سے لے کر امام خمینی، جنرل ضیاءالحق اور صدام حسین تک، ہمارے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جن سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مسلم معاشروں کی ضرورت ایسی ”مدبر‘‘ سیاسی قیادت ہے جو ان کی داخلی تقسیم کو کسی طرح سنبھالے اور باہمی کشمکش میں ضائع ہوتی توانائیوں کو کوئی تعمیری رخ دے، نہ کہ ایسی قیادت کی جو کچھ ”جرات مندانہ‘‘ اقدامات کر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرے اور پھر موقع پاتے ہی اس طاقت کو نظریاتی وسیاسی مخالفین کو روندنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments