ڈان لیکس کی سچائی اور نان اسٹیٹ ایکٹرز


حُب الوطنی اور دیانت کی ‘ٹکسال’ میں سے ڈھل کر آنے والی نئی حکومت نے کالعدم جہادی تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے رشتہ دار مفتی عبدالروف اور بیٹے حماد اظہر سمیت 44 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کالعدم جماعۃ الدعوۃ کے لوگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے حالیہ کریک ڈاون کے بعد جماعت الدعوۃ اور جیش محمد نے اپنے سب دفاتر اور سرگرمیاں روک دی ہیں۔

اب ذرا فرصت ملے تو انگریزی اخبار ڈان کی وہ خبر دوبارہ نکال کر ضرور پڑھ لیجیے جو 18 ستمبر 2018 کو ہوئے مشہور اُڑی حملے کے بعد سامنے آئی تھی اور اسے بعد میں ”ڈان لیکس” کا نام دیا گیا۔ اس خبر میں ایک اہم اجلاس کی کہانی درج تھی جس میں سیاسی حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ان جہادی گروہوں کی سرپرستی کا سلسلہ رکنا جائے۔ یہ خبر 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہوئی تھی۔ خبر کے مطابق اس اجلاس میں کافی تُوتکار ہوئی اور اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شیف نے اجلاس میں بیٹھے سیکیورٹی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے تھے:

”whenever action has been taken against certain groups by civilian authorities, the security establishment has worked behind the scenes to set the arrested free۔ ”

ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہونے والی خبر کا لنک  یہ تھا

https://www۔dawn۔com/news/1288350

جب یہ خبر سامنے آئی تو ملک کے طاقت ور حلقےسخت خفا ہو گئے۔ ان کی جانب سے مسلسل کہا گیا کہ خبر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جانب سے ایک مشہور زمانہ ٹویٹ بھی آئی تھی جس میں Rejected کا لفظ نمایاں تھا۔ غرض بہت گرد اُڑی۔ پھر سابق حکومت کی جانب سے اپنے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی کی ‘قربانی’ دے کر طاقت وروں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے بعد بھی ہر طرف سے غداری کے الزامات کی بوچھاڑ جاری رہی۔ خبر شائع کرنے والے ڈان اخبار کی ملک کے مخصوص منطقوں میں سرکولیشن روک دی گئی تھی اور کیبل سے اُن کا چینل بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ لیکن ڈان کا ادارتی بورڈ اور نمائندہ اپنی خبر پر آخر تک قائم رہے۔

اس وقت کچھ صحافیوں نے بھی اس خبر پر تبصرے کیے لیکن اسے جھٹلایا نہیں۔ خبر کے بعد بنائے گئے ماحول کا اصل مقصد معروف سیاسی تجزیہ کار حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ : ”ڈان لیکس کی انکوائری کا مقصد حکومت پر دبائو ڈال کر جنرل راحیل شریف کو توسیع دلوانا تھا اور توسیع دلوانے میں چوہدری نثار آگے آگے تھے”

حامد میر کے کالم کا لنک ملاحظہ کیجئے

https://jang۔com۔pk/news/307243-mazeed-tamasha-na-lagaen

اس کے بعد جلتی پرتیل کا کام ڈان کے صحافی سرل المیڈا کی نواز شریف کے ساتھ ہوئی اس گفتگونے کیا جو 12 مئی 2018 کو شائع ہوئی۔ نواز شریف نے اُس وقت قریب وہی باتیں کی تھیں جو اب موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں کہ ہمیں ان Liabalities سے جان چھڑانی پڑے گی۔ صحافی المیڈیا کی معزول وزیراعظم نوازشریف سے یہ گفتگو ملتان میں ایک جلسے کے بعد ہوئی تھی، اگلے دن اخبار میں جب نواز شریف کے یہ الفاظ شائع ہوئے تو ہر طرف ایک بھونچال سا آ گیا۔ نواز شریف نے کہا تھا :

“Militant organisations are active۔ Call them non-state actors, should we allow them to cross the border and kill 150 people in Mumbai? Explain it to me۔ Why can’t we complete the trial?

اسی رپورٹ میں نواز شریف کے یہ الفاظ بھی درج ہیں:

“We have isolated ourselves۔ Despite giving sacrifices, our narrative is not being accepted۔ Afghanistan’s narrative is being accepted, but ours is not۔ We must look into it۔”

اس خبر کے بعد سرل المیڈا اور اس کے ادارے کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ ٹویٹر ٹرولز نے غداری اور دشمن ملک کی ایجنٹی کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ سرل المیڈیا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا لیکن اس سارے شور شرابے کا ڈان اخبار اور سرل المیڈا نے اثر نہیں لیا۔ وہ اپنی خبر پر قائم رہے۔

سرل المیڈا کی دوسری خبر کا لنک

https://www۔dawn۔com/news/1407192

اب تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ نئی حکومت کے لوگ بھی وہی باتیں کر رہے ہیں جو اس سے پہلے غدار قرار دیے گئے لوگ کرتے تھے۔ پاکستان کا اسٹیتس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف ) کی گرے اور بلیک لسٹ کے درمیان جھول رہا ہے۔ چین مسعود اظہر کے معاملے میں ایک بار پھر پاکستان کی مدد کرے گا یا نہیں، اس بارے میں حکومت شک اور ابہام کا شکار ہے۔

اس ساری صورت حال میں حکومت اور دیگر فیصلہ ساز قوتوں کے پاس ‘کارکردگی’ دکھانے کے علاوہ چارہ نہیں بچا تھا۔ 14 فروری 2019 کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہوئے بڑے خودکش حملے کے بعد پاکستان پر دباو بڑھ گیا تھا کیونکہ اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔ پلوامہ حملے کے دو دن بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو پیشکش کی تھی کہ اگر انہیں اس بات کے ثبوت فراہم کیے جائیں کہ پلوامہ حملے میں پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی تو وہ کارروائی کریں گے۔ اس کے بعد بالاکوٹ میں بھارت نے ”سرجیکل اسٹرائیک ٹو” کی ، جواب میں پاکستان نے ”ابھے نندن سرپرائز” دیا لیکن معاملہ ابھی تک حتمی حل تک نہیں پہنچا۔

5  مارچ 2019 کو پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے کالعدم تنظیموں کے 44 افراد کو حراست میں لینے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ”جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور رشتے دار مفتی عبدالرؤف کے نام انڈیا کی طرف سے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزئیر میں شامل ہیں۔ ” اس سے یہ واضح ہو گیا کہ فناشل ٹاسک فورس کے دباؤ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی بھارت کو کی گئی پیشکش بھی عمل درآمد کے مراحل میں ہے۔

اس وقت ملک کے فیصلہ ساز سخت امتحان میں ہیں۔ کالعدم جہادی تنظیمیں اور ان کی باقیات حکومت اور سیکیورٹی فیصلہ سازوں کے گلے کی ہڈی بن چکی ہیں جسے اگلنا اور نگلنا دونوں مشکل ہیں۔ سیکیورٹی اداروں اور فیصلہ ساز حلقوں کے خیال میں جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید اور جیش محمد کے مسعود اظہر نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اگر ایک دم سے ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے توعوام کے سامنے اس کا جواز تراشنا ایک نئی مصیبت ہوگی۔ بھارت کا ان افراد کی حوالگی کا مطالبہ بھی فوری طور پر پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے ان ابواب کو کسی ایسے طریقے سے حذف کر دیا جائے کہ نقصان اور رسوائی کم سے کم ہو۔

ابھی یقین سے کہنا مشکل ہے کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ وابستہ اتنی بڑی افرادی قوت کو کیا نئی مصروفیت سونپی جائے گی لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہر گزرنے والا دن 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والی خبر جسے ”ڈان لیکس” کہا گیا تھا، کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).