ٹرمپ حکومت نے ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد بتانے کو غیر ضروری قرار دے دیا


ڈرون حملے

ٹرمپ صدارت کے پہلے دو سالوں میں 2،243 ڈرون حلمے ہوئے ہیں جبکہ صدر اوباما کی آٹھ سالہ حکومت میں 1،878 حلمے ہوئے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر براک اوباما کی بنائی ہوئی ایسی حکمت عملی کو رد کر دیا ہے جس کے تحت امریکی حساس اداروں پر جنگی علاقوں سے باہر ڈرون حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد شائع کرنا لازمی تھا۔

ان حملوں کو شفاف بنانے کی کوشش میں سابقہ صدر اوباما نے 2016 میں یہ قانون نافذ کیا تھا۔

نو گیارہ کے حملوں کے بعد ڈرون کا استعمال عسکری اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مسلسل بڑھتا گیا ہے۔

لیکن ٹرمپ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون ’غیر ضروری‘ ہے۔

یہ حکم خصوصاً سی آئی اے کے لیے تھا جو کہ افغانستان، پاکستان اور صومالیہ جیسے ممالک میں ڈرون حملے کر چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

وینزویلا کے صدر پر ڈرون حملہ، ’صدر محفوظ رہے‘

پاکستان میں دس ماہ بعد امریکی ڈرون حملہ

’عمر خالد خراسانی کے مارے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی‘

ایک حکومتی اہلکار کا کہنا تھا کہ ’حکومتی شفافیت نہیں بڑھتی بلکہ ہمارے حساس اداروں کے اہلکاروں کے کام میں رکاوٹ بنتی ہیں۔‘

اصول کیا تھا؟

اس قانون کے تحت سی آئی اے کے سربراہ پر لازمی تھا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کا سالانہ خلاصہ تیار کریں اور اندازہ لگائیں کہ ان میں کتنے شہری مارے گئے ہیں۔

تاہم صدر ٹرمپ کے حکم سے شہری ہلاکتوں پر اطلاع دینے کے وہ مطالبات نہیں بدلتے جو کہ امریکی افواج کے لیے کانگریس نے بنائے ہیں۔

برطانوی تھنک ٹینک بیورو آف اینوسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق ٹرمپ صدارت کے پہلے دو سالوں میں 2،243 ڈرون حلمے ہوئے ہیں جبکہ صدر اوباما کی آٹھ سالہ حکومت میں 1،878 حلمے ہوئے تھے۔

تاثرات کیا ہیں؟

قانون سازوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سی آئی اے کو بغیر احتساب کے ڈرون حملے کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائیٹس فرسٹ کی ریٹا سیمین نے کہا کہ ’ٹرمپ حکومت کا یہ فیصلہ خطرناک اور غیر ضروری ہے۔ قوت کے غلط استعمال سے ہونے والی شہری ہلاکتوں پر شفافیت اور احتساب لاگو کرنے کی جدو جہد میں یہ ایک منفی قدم ہے۔‘

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شِف نے اوباما حکومت کے اس قانون کو ’شفافیت کا اہم اقدام‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کو رد کرنے کی ’بالکل کوئی وجہ نہیں ہو سکتی‘۔

https://twitter.com/nedprice/status/1103356063523442695

ٹوئٹر پر نیڈ پرائیس کا کہنا ہے کہ ’اس قانون کا زیادہ تعلق شفافیت سے تھا۔ اس سے امریکہ کو یہ فائدہ تھا کہ ہم دہشت گرد تنظیموں سے آنی والی غلط اطلاعات کا جواب دے کر ثابت کر سکتے تھے کہ ہماری کاروائی کتنی موثر ہے۔ یہ ایک اہم ہتھیار ہے جو ہم اب کھو چکے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp