انسانی خدمت کا جذبہ


منگل 4 مارچ کو گلگت بلتستان کے دور دراز گاؤں یاسین سے گلگت شہر جانے والی ایک کار کو وادی سُمال کے سامنے حادثہ پیش آیا۔ گاڑی موڑ کاٹتے ہوئے دریائے غذر میں جاگری۔ کار میں ایک خاتون اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد سوار تھے۔ یہ افسوس ناک واقعہ صبح آٹھ بجے کے قریب پیش آیا۔

اس حادثے خوف ناک حادثے کے نتجے میں ایک آٹھ سالہ بچی موقع پر ہی جان بحق ہوگئی جبکہ ایک زخمی شخص کو گلگت سٹی اسپتال پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوگیا۔ جب یہ حادثہ پیش آیا عین اُسی وقت گاوُں سُمال کا ایک نوجوان صفت خان نے خوف ناک حادثہ دیکھ کر بھاگتے ہوئے حادثے کی جگہ پہنچا۔ حادثہ ایک خطرناک پہاڑی پہ پیش آیا تھا جو اتنی خطرناک تھی کہ وہاں نیچے دریا تک پہچنا ممکن نہیں تھا۔

صفت خان کسی قسم کے امداد کا انتظار کیے بناء اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر نیچے دریا میں اترا اور دریا کے بہاؤ کا سامنا کرتے گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ یاد رہے اِن دنوں اس علاقے میں منفی دس کی سردی ہوتی ہے۔ یہاں لوگ اپنے ہاتھ منہ دھونے کے لئے بھی پانی گرم کرتے ہیں۔ لیکن اس بہادر نوجوان نے اپنی جان کی پراہ کیے بغیر گاڑی تک پہنچ گیا او اندر پھنسے زخمیوں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔

کار کے اندر پانی بھر گیا تھا سخت سردی میں زخمیوں کی حالات بہت نازک تھی۔ جب زخمیوں کو خشکی پر نکالا گیا تب تک اور بھی لوگ وہاں پہنچ گئے تھے سب نے مل کر وہاں آگ کا بندوبست کرکے زخمیوں کو گرم کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو فوری طور پر قریبی ہسپتال گوپس پہنچا دیا گیا۔ جہاں ان کو فوری امداد دی گئی اور ایک شخص جس کی حالت تشویش ناک تھی کو گلگت ریفر کردیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔

اس بہادور نوجوان کی کوششوں سے زخمیوں کو بروقت نکالا گیا اور مزید اموات نہیں ہوئیں۔ صفت خان نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کیونکہ ایک طرف خون جمادینے والی سردی دوسری طرف چلتا دریائے غذر کا یخ پانی، لیکن انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان کو یہ خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اگر خدانخاستہ اس کو کچھ ہوجاتا۔ شاید صفت خان یہ جانتا تھا کہ مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت ہی اعلی ترین صفات میں آتا ہے۔

شاید اس کو اس بات کا اندازہ تھا کہ خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو انسان کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کو اس بات کا بھی علم ہوگا کہ انسانیت کی خدمت پر ہی انسان انسانیت کے قریب جاتا ہے۔ انسان کی جان بچانا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ خداوند کریم اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی“ انسانیت کی خدمت ہی انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ اس کا اجر اللہ تعالی دنیا اور آخرت دونوں میں دیتا ہے۔

ہمیں اپنے معاشرے میں ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن شکر ہے آج بھی ایسے عظیم لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ صفت خان کی اس بہادری کی خبر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئی اس کی تصور کو ہزاروں لوگوں نے شیئر کیا ہے اور اس کی بہادوری پر اس کو داد دی جاری ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر گوپس نے نوجوان کی بہادری کی خبر سن کر اس کو اپنے دفتر طلب کرکے شاباش دیا اور ڈپٹی کمشنر غذر کو بھی اس نوجوان کی بہادری کے بارے میں آگاہ کردیا گیا۔

علاقے کے مکینوں کے مطابق صفت خان ایک انتہائی شریف نفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن بھی ہے۔ وہ علاقے میں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ صفت خان ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ گوپس انٹر کالج میں چھ ہزار تنخواہ میں فوٹو گرافر کی حثیت سے کام کررہا ہے اور مشکل سے اپنے بچوں کی کفالت کررہا ہے۔ عوامی حلقوں نے صفت خان کی اس بہادری کو سہراتے ہوئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور وزیر اعلی گلگت بلتستان سے درخواست کی ہے کہ صفت خان کی اس بہادری کو مدنظر رکھ کر اسے اِس کی نوکری پہ مستقل کیا جائے اور اس کا نام صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد کیا جائے۔

گلگت بلتستان حکومت کی یہ اچھی روایت رہی ہے کہ وہ ایسے بے لوث اور باہمت لوگوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ وہ لوگ جو انسانی خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں وہ لوگ اس خطے کے لئے ایک سرمایہ ہے۔ ایسے لوگ ہی معاشرے کے حقیقی ہیرو ہوتے ہیں۔ اور ایسے ہی باہمت لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ حکومت وقت صفت خان کی اس بہادوری کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).