مقبوضہ کشمیر پر بھارت اور پاکستانی پالیسی کا موازنہ


بھارت میں جمہوریت کے تسلسل کی برکت سے داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں بھی تسلسل رہا اور یہی وجہ ہے کہ بھارت نے کشمیر مسئلہ پر طویل المدتی پالیسی بنانے کے ساتھ اپنی توجہ پوری دُنیا کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات مضبوط کرنے پے لگائی، کیوں کہ پوری دُنیا میں ایک ہی پالیسی کامیاب ہے اور وہ ہے معاشی مفادات کی پالیسی۔ جس کے نتیجے میں امریکا، افریقہ، ایشیا، روس اور یورپ کے تمام ممالک کے سرمایہ داروں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی اور ان ممالک کے معاشی مفادات بھارت کے ساتھ جڑ گئے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ملک کی خارجہ پالیسی پر سرمایہ داروں کے گہرے اثرات ہوتے ہیں اس لئے ان ممالک کی سیاسی پارٹیاں ایسی خارجہ پالیسیاں بناتی ہیں جن سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملے، جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت مضبوط اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں اور نتیجتاً لوگ انہی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو اُن کے معاشی حالات میں بہتری لائیں۔ اُس کے ساتھ ساتھ بھارت نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی اور اپنی نوجوان نسل کو بہتر مستقبل کے مواقع فراہم کیے جس کی مثال بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری اور مواصلاتی اور خلائی ٹیکنالوجی ہیں جس میں بھارت دُنیا کے اہم مُلک کے طور پے جانا جاتا ہے۔

بھارت نے اس کے علاوہ دُنیا میں اپنی فلمی صنعت جو افریقہ سے لے کر روس کی تمام ریاستوں میں بھی سراہی جاتی ہے کے ذریعے دُنیا میں اپنا ایک نرم پہلو اُجاگر کیا جس میں بھارت کو ایک امن پسند اور انسانوں سے محبت کرنے والا ملک دکھایا گیا اور پاکستان کو ایک مذہبی جنونی اور دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کیا گیا؛ کیونکہ باقی دُنیا کے پاس کشمیر پر ہمارا نقطۂ نظر جاننے کا کوئی ذریعہ لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے علاوہ نہیں اس لئے بھارت کا بیانیہ مانا جانے لگا۔

ان تمام اقدامات کے بعد جب انڈیا کو یقین ہو گیا کہ بین الاقوامی رائے عامہ بھارت کے حق میں ہو گئی ہے تو اُس نے اسرائیل کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو پوری طاقت سے کچلنا شروع کر دیا، جس میں مظاہرین پر پیلٹ گنوں کا استعمال، حریت پسندوں کا قتل اور گرفتاریاں شامل ہیں۔ پاکستان سے آنے والے شور کو بند کرنے کے لئے بلوچستان اور کے پی کے، کے مُختلف علاقوں میں محروم اور پسے ہوئے طبقوں کو استعمال کیا۔ ان علاقوں میں پہلے سے موجود لیکن کم زور علاحدگی پسند اور شدّت پسند تنظیموں کو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے مالی اور عسکری امداد دینا شروع کر دی، جس سے یہ تنظیمیں مضبوط ہوئیں اور ان کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی۔

پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی باقی پالیسیوں کی طرح کوئی طویل المدتی پالیسی نہ بنا سکا اور ہمیشہ یک وقتی، مذہبی اور جذباتی پالیسی لے کر چلتا رہا اور اپنی توجہ اور طاقت صرف ملک کو دفاعی طور پر مضبوط کرنے پر لگائی تا کہ ہم اپنے سے کئی گنا بڑے دُشمن سے بندوق کے زور پر کشمیر حاصل کر سکیں۔ پاکستان نے امریکا سے جدید اسلحہ اور اُس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بغیر سوچے سمجھے اور عوام کو اعتماد میں لئے بغیر دو سپر پاورز کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر پرائی جنگ اپنے گلے ڈال لی۔

اپنے غیر دانش مندانہ فیصلوں کی وجہ سے آج ہم افغان جنگ میں ہزاروں جانوں اور اربوں روپے کا معاشی نقصان کروانے کے باوجود دونوں ممالک (امریکا، افغانستان) کو بھی اپنا دُشمن بنا بیٹھے ہیں۔ ہم نے معیشت، سائنس اور صنعت کو کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کی بناء پر ہماری معیشت اور صنعت آج مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور ہم معاشی طور پر ایک محتاج ملک بن گئے ہیں۔ معاشرے میں بنیاد پرستی اور تشدّد پسندانہ رویوں کے فروغ کی وجہ سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کوئی مثبت سمت یا روشن مستقبل دینے میں بھی ناکام رہے اور الف لیلوی کہانیاں سنا سنا کر اُنہیں ذہنی ہیجان کا شکار کر دیا۔

ہمارے ناقص اور جھوٹی تاریخ پر مبنی تعلیمی نظام ہی کی وجہ ہے کہ آج اس ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بشمول ڈاکٹرز، انجینئیرز اور قانون دان بھی خادم رضوی، فضل الرحمٰن اور زید حامد (اصلی تے وڈے مذہبی چورن فروشوں کے نام دوستوں کی دل آزاری سے بچنے اور حفظِ ماتقدم کے طور پر تحریر نہیں کیے گئے) جیسے لوگوں کو اپنا پیشوا اور تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں فنونِ لطیفہ کو بھی اسلام کی تعلیمات کے خلاف گردانتے ہوئے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور فن کاروں کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔

جس کی وجہ سے ہماری فلمی صنعت بالکل تباہ ہو چکی ہے لہٰذا ہم اپنا بیانیہ کسی نرم پہلو کے ذریعئے دُنیا تک پہنچانے سے بھی قاصر ہیں۔ اور ہماری کشمیر پالیسی دُنیا تک اسلامی دفاعی کونسل کے اظہر محمود اور حافظ سعید گاہے بگاہے دہشت گردی کی کارروائیوں، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، یومِ سیاہ اور یومِ کشمیر منا کر پہنچاتے ہیں۔

اپنے معاشی اور صنعتی استحکام کی وجہ سے آج پوری دُنیا میں انڈیا کا بیانیہ تسلیم کیا جاتا ہے اور پاکستان کو اپنی روایتوں اور بشارتوں پر مبنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک اپنے مشترک فیصلے سے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج فلسطین، شام اور روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کو تو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر کسی حد تک اُٹھایا اور سنا جا رہا ہے لیکن کشمیر کے لوگوں کے خون کی کوئی قدر نہیں اور بشمول ہمارے برادر ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے کوئی ایک ملک بھی پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا نہیں۔

ہمارے سامنے روس اور چین کی مثال موجود ہے کیا ہم اور پوری دُنیا نہیں جانتے کہ ان دونوں ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کی کس طرح سے پامالی کی جاتی ہے اور ان کے مسلمان باشندوں پر اپنے مذہب کے مطابق زندگی گُزارنے کے لئے پوری دُنیا کے مُقابلے میں سب سے زیادہ پابندیاں ہیں، لیکن جسے پوری دُنیا ہمارے سمیت صرف اس لئے نظرانداز کرتی ہے کیوں کہ وہ دفاعی کے علاوہ معاشی اور سائنسی طور پر بھی مضبوط ممالک ہیں اور سب ممالک کے معاشی فوائد کسی ناں کسی حد تک ان ممالک سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں اپنی خارجہ اور کشمیر پالیسی پر ٹھنڈے دماغ اور صدقِ دل سے نظرِ ثانی اور بدلنے کی ضرورت ہے، ہمیں مسلئہ کشمیر کو مذہبی کی بجائے انسانی بنیادوں پر اُٹھانے اور دُنیا میں کامیاب سفارت کاری کے ذریعے با اثر حلقوں میں کشمیریوں کے خود ارادیت کے حق میں رائے ہم وار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کشمیر کے مسئلے پر اپنا بیانیہ منوانے کے لئے پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے اور معاشی طور پر خود مختاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو بدلنے اور اس میدان میں ایمرجنسی نافذ کر کے اسے مضبوط کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).