خزاں سردی میں آتی ہے؟


کبھی آپ نے ٹنڈ مُنڈ درخت دیکھے؟ کبھی چِر چِر کرتے پتوں کی آواز سُنی؟ کبھی شاں شاں کرتی تیز ہواؤں سے پالا پڑا؟ کبھی کمرے سے باہر نکلنے پر ایسا لگا کہ جیسے باہر پھوار میں آ گئے ہوں آپ، جبکہ باہر موسم بالکل صاف ہو؟ کبھی آپ کے نصیب نہیں، بلکہ آپ کے پاؤں کی جلد پُھوٹی؟ کبھی سورج کو چِینُو مِینُو سا بچہ بن کر آتے اور فوراً ہی چھپ جاتے دیکھا؟ اچھا یہ بتائیے کہ آپ نے کبھی گھونگلُو کھائے؟ اگر کھائے نہیں تو دیکھے تو ہوں گے لازماً۔

اگر تو کبھی آپ نے یہ سب دیکھا ہے، تو جب بھی دیکھا، تب ہی کو خزاں کہتے ہیں۔ خزاں میں پھول کِھلنے سے گریز کرتے ہیں، پھولوں کے پروڈکشن یونٹس زمین میں چھپ جاتے ہیں، اس کے باجود بھی کچھ ڈھیٹ قسم کے پھول خزاں میں بھی کھلے رہتے ہیں۔ آپ کبھی خزاں میں کسی گراسی پلاٹ کو دیکھیے گا، اگر آپ اپنا چشمہ گھر بھول آئے ہوئے تو آپ یقیناً یہی سمجھیں گے کہ کسی نے سونے کی قالین بچھا دی ہے یہاں، مگر خدارا وہاں سو مت جائیے گا!

یہ سونا دھات والا ہے۔ خزاں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں بہار نہیں ہوتی۔ اور سب سے بڑا فائدہ یہ کہ اس کے بعد بہار کو ہونا ہوتا ہے۔ ہاں ایک بات مسلم ہے کہ شادیوں کی بہاریں خزاں ہی میں لگا کرتی ہیں۔ گھونگلو، مٹر، گاجر، مولی، خزاں میں ہی ہوتے ہیں، اور تو اور خزاں میں آلو، مونگی مسری دال، ماش دال، دال چنا، لوبیا، اور تمام قسم کے گوشت بشمول کھوتے اور کُتے کا، بھی آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں، اس سے بھی بڑی بات یہ کہ یہ چیزیں بہار میں بھی مل جاتی ہیں۔ ہمارے گاؤں میں رہنے والی اکثر مرغیوں کے بال بھی خزاں میں جھڑ جاتے ہیں، مگر وہ خزاں نسلی ہوتی ہے، موسمی نہیں۔

انگریزوں کے ہاں خزاں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، بلکہ وہ ہر موسم کو اہمیت دیتے ہیں۔ اہمیت ہم بھی دیتے ہیں، بلکہ ہم تو اپنا پہناوا بھی موسموں کو دیکھ کر طے کرتے ہیں، اس سے بڑی اہمیت کیا دی جائے؟ ، جبکہ وہ بچارے انگریز۔ سردیوں میں ادھ ننگے اور گرمیوں میں ادھ ڈھکے! بھکن کے بھکن۔ ڈھکن کے ڈھکن، جسے کھولو تو ٹُھس کی آواز آئے اور توڑو تو بھی ٹُھس ہی سنو! ۔ امریکا والے خزاں کو 21 ستمبر سے 21 دسمبر تک محیط سمجھتے ہیں۔

مشرقی ایشیا والوں کے نزدیک خزاں 8 اگست سے 7 نومبر تک ہے۔ آئرلینڈ کے قومی تحقیقی موسمی ادارے ”میٹ ایرین“ کے مطابق خزان ستمبر اکتوبر اور نومبر کے تین مہینوں پر محیط ہوتی ہے۔ جبکہ ہم اردو شاعروں کے نزدیک معاشی یا معشوقی بدحالی کا موسم ہی خزاں کا موسم ہوتا ہے، یعنی ہمارا ہر موسم ہی خزاں ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں خزاں کو خاصی خاصے کی چیز بلکہ خاصا خاصے کا موسم سمجھا جاتا ہے۔ انگریزوں نے خزاں پر بہت کچھ لکھا ہے۔ جارج کُوپر کی ایک انگریزی نظم دیکھیے

October gave a party;

The leaves by hundreds came۔

The Chestnuts، Oaks and Maples،

And leaves of every name،

The Sunshine spread a carpet،

And everything was grand،

Miss Weather led the dancing،

Professor Wind the band۔

جبکہ جلیل مانک پوری صاحب نے ایک ہی شعر میں بات مُکا دی

جو تھی بہار تو گاتے رہے بہار کے راگ

خزاں جو آئی تو ہم ہو گئے خزاں کی طرف

موسم کے بارے میں انگریزوں کی ایک مجبوری ہے اور وہ مجبوری یہ کہ وہ بچارے انگریز ہیں اور ہماری مجبوری یہ کہ موسم کے بارے میں ہماری کوئی مجبوری نہیں کیوں کہ ہم انگریز نہیں ہیں۔ اُن کے سنٹرل ہیٹڈ اے سی، ان کے الکٹرک ہیٹرز، ان کی کاروں میں لگی ہیٹ کنٹرول سیٹیں اور ان کی سڑکوں پر بکھرے نظارے انہیں ٹھنڈ کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے۔ مگر ہم الحمدللہ اللہ کی ہر نعمت، ہر موسم سے خوب خوب ”متاثر“ ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

”آج تو بڑی ٹھنڈ ہے، یہ اپنا مفلر دکھانا“ جیسے جملے کہہ کر قبضہ گروپ ہونا، ٹھنڈے ہاتھوں سے دوسروں کو سلام کرنا، منہ سے سردی کی وجہ سے نکلنے والے بخارات کو سگریٹ کے دھویں کی طرح منہ بگاڑ کر خارج کرنا، منہ پر تیل چپیڑنا، تبت کولڈ کریم کا بے جا استعمال، دستانے پہن کر ٹچ موبائل چلانے کی ناکام کوشش کرنا، مچھلی کھانا اور وہ بھی دوستوں کی جیب سے کھانا، اپنی جیب سے بس پکوڑے ہی کھانا، سمیت جانے کتنے گناہ ہیں جو ہم سرِ عام کرتے ہیں۔ سخت سردی میں پھٹی ہوئی جرابیں، ٹوٹے ہوئے بوٹ اور رگڑا ہوا کوٹ پہنے رات کے دس گیارہ بجے بآسانی بیس پچیس کلومیٹر کا سفر کرنے والے صبح وہی سفر آٹھ بجے واپسی کے لیے کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے ایک آدمی نے ایک دن کہہ دیا کہ اگر خزاں میں میرے آنگن میں پھول کھلا تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا، پھر یوں ہوا کہ خزاں ہی میں کچھ دن بعد اس کا بچہ پیدا ہو گیا۔ سُنا ہے اب وہ مفتیانِ کرام کے پاس طلاق کا مسئلہ پوچھنے جاتا رہتا ہے۔

خزاں کو ہمارے ادب میں افسردگی، خاموشی، نقصان، تنہائی جیسی کیفیات کا موسم سمجھا جاتا ہے، خزاں کو بہار کی ضد دکھایا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خزاں کی اپنی خوبصورتی ہے، بہار کی اپنی۔ ان دونوں موسموں میں تقابل ہو ہی نہیں سکتا، دونوں کا اپنا مقام، اپنا مزاج ہے۔ جہاں بہار کو اس کی سرسبزی کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے وہاں مجھ ایسے سر پھرے خزاں کو اس کی ڈھلتی شاموں کی اداسی کی وجہ سے اپنی دھڑکنوں میں اترا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

اب ایک سوال آپ کے ذمے۔ کیا خزاں سردی میں آتی ہے؟

علی عمر عمیر
Latest posts by علی عمر عمیر (see all)
اس سیریز کے دیگر حصےآدھے گھنٹے کا خدا – اردو کا شاہکار افسانہسوتیلا آدمی – اردو کے شاہکار افسانےوہ بڈھا – راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).