عائشہ سروری کا کالم: اس عالمی یومِ خواتین پر اپنا کھانا خود پکائیں، خود گرم کریں


عالمی یومِ خواتین

گزشتہ سال عورت مارچ کے موقع پر ایک خاتون نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھی تحریر بعد ازاں بہت متنازع بنی یا اسے جان بوجھ کر متنازع بنایا گیا۔

تحریر کیا تھی؟ کھانا خود گرم کر لو۔

یہ پاکستانی خواتین کی جانب سے ایک بہت ہی بنیادی تحریک تھی جس کی بنیاد پاکستان سے ہی اٹھی اور اسے یہیں کی خواتین نے شروع کیا۔

اس پلے کارڈ کے پیچھے اس ذہنیت کی جانب اشارہ تھا کہ بہت ساری خواتین یہی سمجھتی ہیں کے کھانا بنانا، گرم کرنا یا تازہ روٹیاں دینا خواتین کا کام ہے جس کی وجہ سے انہیں پیچھے رکھا جاتا ہے۔

یعنی ایک طرح سے آپ ان کو باورچی خانے سے باندھ کر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کو ان کی زندگی میں کامیابی کا پیمانہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

درحقیقت اس نعرے ‘اپنا کھانا خود گرم کر لو‘ کے پیچھے بہت ساری ذہنی اور سیاسی پابندیوں کی تاریخ ہے۔

کیوں اپنا کھانا خود گرم کرو ایک اہم نکتہ ہے اور کیوں یہ ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’عورت کی شناخت مرد سے نہیں ہوتی، اس کا اپنا وجود ہے‘

ویمن ڈے: کیا آپ یہ بات کسی مرد سے کہیں گے؟

عورت کیا پہنے، کیا کرے اختیار کس کا؟

پہلی بات یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کی کچھ معاشرتی اور گھریلو ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔

عموماً جب ہم عورتوں کی بات کریں گے تو پاکستانی معاشرے میں ان کے بارے میں آپ کو ہمیشہ سننے کو ملے گا کہ ان کی ذمہ داری کھانا بنانا، کھانا گرم کرنا، گھر کو صاف رکھنا، بزرگوں کا خیال رکھنا، بچوں کا خیال رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ کہ یہ تو ہیں ہی عورتوں کی انتہائی بنیادی ذمہ داریاں۔

جیسے جیسے معاشی ترقی ہوئی اور زمانہ نے اپنا رنگ ڈھنگ بدلا تو گھر کی اقتصادیات پر دباؤ زیادہ ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت ساری خواتین کو گھر سے نکل کر کام کرنا پڑا۔ اس طرح خواتین بھی گھر کی اقصادیات میں اہم کردار ادا کرنے لگیں۔

ایسا کرتے ہوئے ذمہ داریوں کا پریشر تو اپنی جگہ اس کے علاوہ خواتین پر ذہنی دباؤ علیحدہ بڑھا۔

فرض کیجیے کہ ایک عورت کام کے بعد چھ، سات بجے کے لگ بھگ گھر واپس آتی ہے اور تقریباً اسی وقت اس کے بھائی یا میاں بھی گھر واپس آ رہے ہوتے ہیں۔

عالمی یومِ خواتین

اب عموماً کیا ہوتا ہے کہ مرد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں گے، کرکٹ دیکھیں گے، شاور لیں گے یا گلی میں کھیل لیں گے اور کچھ نہیں تو بیٹھ کر گپیں ہانک لیں گے یا فون استعمال کر لیں گے۔

مگر ایک عورت جو ان سب کے ساتھ گھر واپس آتی ہی اور اسی قسم کے بوجھ کے ساتھ آتی ہے اس کا سب سے پہلے کام یہ ہوتا ہے کہ وہ چائے بنائے کہ گھر کے مرد بہت تھکے ہوئے آئے ہیں اور ان کا اتنا احسان بہت ہے کہ وہ عورت کو کام کے لیے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔

تو اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی کچن سنبھالنا وہ ادا کریں اور بھاگ بھاگ کر کڑک سی چائے کی پیالی بنا کر پیش کریں۔ اور پھر اس کے بعد شام کا کھانا بھی تیار کریں۔

یہ جو ذہنی دباؤ ہے یہ ایک اضافی ذمہ داری ہوتی ہے جو عورتوں کے پاس ہوتی ہے اور مردوں کے پاس نہیں ہوتی۔ اور یہ کھانے والی بات ہے وہ صرف ایک مثال ہے ورنہ اس طرح کے کئی مثالیں ہیں کھانے سے متعلق، صفائی سے متعلق، کہ جب مرد گھر آئے تو گھر چمکتا ہوا ہونا چاہیے، مرد گھر آئے تو کھانا تیار ہو، اور روٹی گرم ہونی چاہیے۔

اور اوپر سے اضافی ذہنی دباؤ ایسے جملوں کی صورت میں بھی مل سکتا ہےکہ ‘میں تنگ آ گیا ہوں ٹھنڈی روٹی کھا کھا کر’ یا ’بچوں کے شور سے‘ یا ’میں جب گھر آؤں تو مجھے سکون چاہیے۔‘

بھلا بتائیے ایک عورت جو کام کر کے واپس آ رہی ہے اسے کسی طرح سکون کی ضرورت نہیں ہے؟ بجائے اس کے اس کو پرسکون کیا جائے اضافی پریشر ڈالا جا رہا ہے۔

اور اگر اسی کو الٹ دیں۔

عالمی یومِ خواتین

فرض کریں ایک عورت جو کام نہیں کرتی وہ گھر پر رہ کر بچوں کا دھیان رکھتی ہے۔ اس کے اوپر بھی یہی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم یہ خود سے ہی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ایک عورت جو گھر سے باہر نکل کر کام کر رہی ہے دفتر میں یا کھیتی باڑی کر رہی ہے یا کچھ اور کام کر رہی ہے اس کے کام کا دباؤ ایک گھریلو عورت سے کم یا زیادہ ہے۔

گھر کا کام، گھر کی صفائی، گھر والوں کا خیال رکھنا اور ان کی جذباتی ضروریات کا خیال رکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ اگر ہم اس کی معاشی ویلیو نکالیں تو مجموعی قومی پیداوار کا بہت بڑا حصہ ان خواتین کی جانب سے ڈالا گیا حصہ ہو جائے گا۔

تو جب ایک مرد گھر آتا ہے تو ایک گھریلو عورت سے خود ہی سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ جیسے وہ چیزیں چاہتے ہیں ویسے ہی ہوں۔

یعنی گھر کے سکون کا بوجھ ہمیشہ سے عورت کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ گھر کا سکون عورت سے بنتا ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے نتیجے میں عورت کتنا دباؤ برداشت کر رہی ہے۔ اور ہم اسے کم کرنے کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔

مذید یہ کہ جدید زندگی کے اپنے پریشر ہیں۔ اس میں آپ کی ڈیجیٹل دنیا کے پریشر ہیں، معاشی دباؤ ہے، ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ وہ اضافی دباؤ ہیں جن کا سامنا گذشتہ نسل کو نہیں کرنا پڑتا تھا۔

اس میں ایک اور بات یہ ہے کہ مرد کیوں گھر کا خیال رکھنا یا گھر کے کام کرنا نہیں سیکھتے؟ مثلاً کھانا گرم کرنا، بچوں کا خیال رکھنا، ناک صاف کر لینا اگر ان کو فلو ہے تو دیکھ بھال کر لینا وغیرہ وغیرہ۔

مرد اس لیے یہ سب نہیں سیکھتے کیونکہ تصور یہی ہے کہ یہ سارے کام عورت کے کرنے کے ہیں۔ اور یہ ایسے کام ہیں جن کے کرنے سے مرد کی مردانگی پر آنچ آتی ہے۔ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔

اگر ایک بیٹا اپنے ہی بچے کا پیپمر بدل رہا ہوتا ہے تو اکثر مائیں اور باقی لوگ ہی کہہ دیتی ہیں کہ ’ہائے میرے بچے کو کیا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

عالمی یومِ خواتین

اس کی بے عزتی ہو رہی ہے اپنے ہی بچے کا ڈائپر بدلنے پر۔ اس کا بیٹا وہ اس صورت میں ہے کہ اس نے اس کی پیدائش کے لیے ایک نطفہ دیا ہے لیکن کیا اس کے علاوہ بھی باپ کی کوئی ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں؟ یہ تصور بہت مشکل ہو جاتا ہے اور یہاں بات بدل جاتی ہے۔

باپ کی ذمہ داریاں اس حد تک سمجھی جاتی ہیں کہ وہ کمائے، تعلیم کے لیے کوئی سوچ بچار کرے، یا بچوں پر رعب ڈالے اس کے علاوہ باقی چیزوں کو باپ کی ذمہ داریوں میں گنا ہی نہیں جاتا۔

اور اگر بچہ بگڑ جائے تو الزام کس کے سر؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ فلاں بچہ باپ کی وجہ سے بگڑا؟ اکثر یہ الزام ماؤں کے سر تھوپا جاتا ہے۔

تو اگر الزام بھی ماں کے سر ہے، کام بھی ماں کرے گی، دباؤ بھی ماں برداشت کرے گی، وقت اور کوشش بھی ماں کرے گی تو کریڈٹ ماں کو کیوں نہیں ملتا جب بچے اچھے ہوتے ہیں؟

اور اس سارے نظام کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب بچے خاص طور پر لڑکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں تو اپنا بستر تک سیدھا نہیں کر سکتے، کھانا پکانا تو دور کی بات ہے۔ اور ایسا خاص طور ایسے بچوں میں زیادہ ہوتا ہے جو تعلیم کے لیے گھر سے باہر جاتے ہیں۔

کھانا بنانا، کپڑے دھونا یہ عورتوں کے کام نہیں ہیں یہ زندگی کے گُر ہیں، لائف سکلز ہیں یعنی زندگی گزارنے کے اسلوب ہیں۔ یہ سب کو برابر آنے چاہیں۔

تو ایک ایسے معاشرے میں جہاں لڑکے آسمان سے اتری مخلوق سمجھے جاتے ہیں وہاں اگر ایک لڑکی کچن کی بجائے بینکر بننا چاہتی ہے یا دنیا بدلنا چاہتی ہے یا کچھ اور کرنا چاہتی ہے اور کہتی کہ ہم کھانا شان مصالحے سے بنا لیں گے یا اپنا کھانا خود گرم کر لو تو غدر تو مچے گا۔

تو ان کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ ہاتھ سے نکل چکی ہیں یا یہ وہ لڑکیاں ہیں جن کے بارے میں ہم طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ یہ وہ ہیں جو کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی۔

ایک بری لڑکی وہی ہے جو گھریلو کام کے علاوہ خواب بھی رکھتی ہوں۔ اور آپ دیکھ لیں ہمارے آس پاس کی عورتوں میں ہماری نانیاں، دادیاں، خالائیں سب کو دیکھ لیں ان میں سے سب کو کچھ نہ کچھ آتا تھا۔

عالمی یومِ خواتین

کوئی اچھا گاتی ہوں گی، کوئی کڑھائی اچھی کرتی ہوں گی کوئی لکھاری ہوں گی مگر آپ کو انہیں کو اچھا بتایا گیا تھا جن کا گھر اچھا صاف ہوتا تھا یا جو اچھا کھانا بناتی تھیں۔

معاشرہ گھر کے کام کو، پکانے، دھونے کو ایک مقابلے کے طور پر دیکھتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی جیسی بھی ہو اگر اسے اچھا کھانا نہ بنانا آتا ہو تو بہت مسئلہ ہو جاتا ہے۔

جب عورت کہتی ہے کہ کھانا خود گرم کر لو تو وہ مرد پر طنز نہیں کر رہی ہوتی بلکہ یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ ہم اس ڈبل پریشر تلے دب چکی ہیں ہمیں نے اپنی ماؤں کو بہنوں کو نانیوں دادیوں کو اتنا اس بوجھ تلے دبتے دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خواب کھو دیے۔ تو ہمیں اس میں برابری دو۔

کہنا وہ یہ چاہتی ہیں کہ ہمیں آگے بڑھنے میں مسائل ہیں، جائیداد کے حصول میں مسائل ہیں تو ہماری جو جدوجہد ہے اس میں یہی مطالبہ ہے کہ ہمیں اتنی آزادی تو دو کہ ہم اپنے کچھ خواب تو پورے کر سکیں۔

ہمارا معاشرہ اسی صورت میں ترقی کرے گا جب اس میں جو بہت زیادہ طاقت والے ہیں وہ اپنے طاقت میں شراکت کے لیے راضی ہوں۔ ان لوگوں کے ساتھ طاقت شیئر کریں جن کے پاس خواب ہیں۔

اس عالمی یومِ خواتین پر اپنا کھانا خود پکائیں اور خود گرم کریں۔ اپنی زندگی میں جو بھی عورتیں ہیں ان کو ہر طرح سے یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp