مرد کا بچہ، نر کا بچہ


جب مرد اور عورت جنسی ملاپ کرتے ہیں تو بیالوجی بتاتی ہے کہ دونوں اپنے اپنے خلیات (cells) شیئر کرتے ہیں اور بچہ کی پیدائش کے لئے دونوں برابر حصہ ڈالتے ہیں۔ ایک کا بیضہ اور دوسرے کا سپرم مل کر وہ بیج تشکیل پاتے ہیں جس سے بچے کی پیدائش کا آغاز ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آج کی اس جدید دنیا میں عورت کسی سے بھی (جنسی عمل سے یا بذریعہ آپریشن) سپرم لے کر بچے کی پیدائش کا عمل شروع کر سکتی ہے، مگر ایک مرد کسی بھی عورت سے بذریعہ سرجری بیضہ لے کر بچے کی پیدائش کا عمل اپنے پیٹ میں یا جسم کے کسی دوسرے حصے میں شروع نہیں کر سکتا –

جنسی عمل میں سپرم کے اشتراک کے بعد جسمانی طور پر مرد کا کردار بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔

اب عورت کا پیٹ ایک کھیتی بن جاتا ہے جس میں وہ بیج (جو آدھا مرد سے ہے اور آدھا عورت سے) نشوونما پاتا ہے۔ عورت پورے نو ماہ اس بچے کے لئے دن رات صبح شام جسمانی روحانی اور اخلاقی ہر اعتبار سے وقف ہو جاتی ہے۔ یہ وقت کن کیفیات کا نام ہے اسے ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے –

پھر بچے کی پیدائش کا وقت آتا ہے جو درد بے چینی اور اذیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اسے بھی عورت اکیلا سہتی اور اس آزمائش سے اکیلی ہی نبردآزما ہوتی ہے جب پوری فطرت اس پر قہر برسانے میں پیش پیش ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے عمل میں سب سے زیادہ نازک اور حساس لمحہ یہی ہے جب بچہ پورا کا پورا عورت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے-

پھر بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ اس کا سارا جسم اور اس میں سارا خون عورت کی دین ہے۔ عورت نے اسے اپنے جسم سے نچوڑ نچوڑ کر اور توڑ توڑ کر دیا ہوتا ہے۔ اس عمل میں بھی مرد کا کردار صفر ہے۔ اگر بچہ دو کلو کا ہے تو یہ دو کلو اس نے سارا کا سارا عورت کے جسم سے لیا ہوتا ہے۔

پھر بچے کی نگہداشت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ عورت دو سال اپنے جسم کا رس نچوڑ نچوڑ کر اسے پلاتی ہے۔ ایک ایسے وجود کو جو خود سے کسی بھی کام کرنے کا عادی نہیں، جو عقل و شعور نہیں رکھتا، جو ضدی اور ہٹ دھرم ہے۔۔۔۔ عورت اس کی بھرپور تربیت کرتی ہے ( اور مرد کے مقابلے میں اب بھی اس کا کردار واضح ہے ) اور اسے ایک مکمل انسان بنا کر اس دنیا کے حضور پیش کرتی ہے۔

مگر جب وہ بچہ دنیا کے سامنے آتا ہے تو خود کو نر کا بچہ سمجھ کر اتراتا ہے۔ وہ عورت جواس کی پیدائش کے اس عمل میں دنیا کی سب سے شدید تکلیف سہہ کر اس کے لئے فطرت سے بنردآزما ہوتی ہے اس کی چوڑیاں اسے بزدلی کی علامت لگتی ہے۔ وہ عورت جو ایک مرد کے برابر کروموسومز کی صورت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور اپنے جسم سے کاٹ کاٹ کر اس کا جسم بناتی ہے اس عورت کا نام یا شناخت اس بچہ کے ساتھ اگر لگ جائے تو اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔

وہ عورت جو ایک نومولود کی تربیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتی ہے اور اسے ایک مکمل انسان بناتی ہے وہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اپنی ماں کی صنف (عورت) کو کمزور، اجڈ، کم عقل، غیر ذمہ دار، بزدل، قابل شکست اور قابل گرفت سمجھتا ہے۔ وہ عورت جس نے اسے فطرت سے لڑ کر اپنی کوکھ میں حفاظت دی جنم دیا اور جو اس کی پیدائش کے بعد بھی اس کے لئے ہر چیلنج سے نبردآزما ہو سکتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ عورت اتنی غیر محفوظ ہے کہ صرف وہی (مرد) ہی اسے تحفظ دلا سکتا ہے –

ایسی سوچ انسانیت کے نام پر کلنک ہے – ایسے لوگ چاہے وہ مردوں میں ہوں یا عورتوں میں، انسانی شعور پر سوالیہ نشان ہیں-

آج کا سوال یہی ہے کہ آخر عورت کے خلاف اتنا تعصب کیوں باوجود اس کے کہ انسان کا وجود بنیادی طور پر اس کا ہی مرہون منت ہے ؟

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan