اکیسویں صدی میں خواتین کا کردار


دُنیا مجموعی طور پر تین بڑے ادوار سے گزری ہے۔ پہلے قبیلوں کی صورت میں لوگ منظم ہوئے۔ اِن میں احساسِ ملکیت پیدا ہوا اور پانی وزمین کے علاوہ اِنسانوں کی ملکیت کا احساس بھی انسان میں اُجاگر ہوا۔ چراگاہوں اور پانی کے حصول کے سلسلے میں دنگے، فساد، قتل و غارت گری ایک پیشہ تھا۔ پھر جاگیردارانہ تمدن پیدا ہوا۔ زمین داری اور زرعی سماج میں عورت اور مرد کی مختلف جسمانی ساخت کی وجہ سے، صنفی طاقت کا توازن بگڑ گیا۔

 عورت کی حیثیت کمتر ہو گئی اور مرد بالادست۔ اِنڈسٹریل ریولیوشن انسانی تاریخ کا تیسرا اہم ترین دورہے جس میں جسمانی طاقت سے زیادہ ذہنی طاقت و بلوغت کی ضرورت تھی، جن ممالک میں اِنڈسٹریل ریولیوشن آیا وہاں عورت نے زرعی سماج میں اپنی کمتر حیثیت سے نکل کر، کارکردگی اور محنت کی بنیاد پر اپنی اہمیت منوائی۔ چوتھا دور، یعنی آج کا دورٹیکنالوجی اور اِنفارمیشن کا دور ہے، جہاں صنفی برابری اور مساوات کی بنیاد پر معاشی و معاشرتی طور پر مرد اور عورت برابری کی بنیاد پر کام کرتے اور اپنی صلاحیت کی بنیاد پر خود کو ثابت کرتے ہیں، مگر آج بھی و ہ سماج جو کہ پہلے دور یعنی قبیلائی دور میں زندہ ہیں وہاں جنس کی بنیاد پر عورت دُشمنی پر مبنی منفی رویے عورت و مرد کے درمیان ایک دیوار بن کر کھڑے ہیں۔ جہاں عورت کی حیثیت و کردار، ایک غلام، ایک کنیز یا ایک پراپرٹی یعنی ملکیت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اِسے مارنے، قتل کرنے سے لے کر بیچنے تک کا اختیار اس کے مرد مالکان کو حاصل ہے۔

صدیوں قبل صنفی امتیاز نہ جانے کس احساس کے تحت پیدا ہوا تھا اور تب سے زمین پر پیدا ہونے والی ہر عورت نے کسی نہ کسی حوالے سے اس امتیاز کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس جبر کو سہا ہے۔ جسمانی طور پر مرد سے مختلف جنسی اعضاء رکھنے والے انسان کو ”عورت“ کہہ کر، اس کی نسبتاً کمزور جسمانی ساخت کی سزا یہ دی گئی کہ اسے ہر اعتبار سے کمتر ثابت کرنے کے لیے، زمانوں سے، مذاہب سے لے کر قوانین تک، ادب سے لے کر سماجیات تک، ہر مکتبۂ فکر فعال رہا ہے۔ صدیوں سے لے کر آج تک۔ عورت اپنے وجود کی حیثیت اور مقام کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ صدیوں کے جبری نظام اور نا انصافی کی شکار عورت اب تک اس کرئہ ارض پہ تماشا بنی، تماشائیوں کے اذیت ناک رویے برداشت کرتے ہوئے ایک متوازن سماج کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

تہذیبوں کی شکست و ریخت سے لے کر لسانیات کی نشانیات کا مطالعہ کریں، آج بھی پوری دُنیا کی لغات و ڈِکشنریاں کھول کر دیکھیں ا ور عوامی سطح پر مردوں کی گفت و شنید کا مطالعہ و مشاہدہ کریں۔ کوئی معاملہ ہو، جھگڑا ہو، فساد ہو، تنقید ہو، غصے کا، احساسِ ذِلت کا، اختلافِ رائے کا، دُشمنی کا یا کسی کیفیت کے اظہار کا، مردوں کے مابین، کسی بھی سطح کا کوئی بھی معاملہ یا مکالمہ، عورت کو گالی دیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

 بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو گالی دیے بغیر پدر شاہی مردانہ سماج کا مہابیانیہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ گالیاں، عام روزمرہ کی گفتگو میں یوں ضم ہو گئی ہیں کہ اب یہ زبان و بیان کا ناقابلِ تردید و تقسیم حصہ بن گئی ہیں اور بغیر کسی احساسِ ندامت کے مردانہ اِستعمال میں ہیں۔ کئی محاورے اور اِستعارے بھی عورت کی تضحیک اور اِس کے محدود کردار کی تشکیل کے ناقابلِ تردید بیانیے ہیں۔

ادب، فلموں، کہانیوں سے لے کر آرٹ اور مجسمہ سازی جیسے فنون میں بھی عورت کی حیثیت ایک Objectکی سی ہے۔ محض ایک شئے، ایک چیز، مرد کی ضرورت، دلچسپی اور استعمال کی چیز۔ فنونِ لطیفہ کے ہر رنگ و فن میں مرد کی پسند کے کردار، مرد کی پسند کی زبان، سب کچھ مرد نے تخلیق کیا، اپنے ایماء پر، اپنے ذوق وشوق کے مدّنظر۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی، ایک عرصے تک عورت کا ڈرا سہما، استحصالی چہرہ، مظلوم روتا دھوتا کردار، مرد کا پسندیدہ کردار رہا ہے۔

 ایثار، قربانی، خلوص، حماقت، بے وقوفی اور قربانی کے بیانیے سنا سنا کر، عورت کا کردار ایک سدھی سدھائی بغیر تنخواہ کے تازندگی خدمت گزار ملازمہ تک محدود کیا گیا۔ مرد کے مقابلے میں کمتر۔ مرد کے بسترپہ اسے آرام پہنچانے والی چیز، فلسفیوں کی نظر میں غیرمعقول، شاعر کی نظر میں جسمانی حسن و لذت کا پیکر، آرٹسٹ کی نظر میں من چاہے خدوخال کی حامِل۔ ذہن، سوچ، خیال اور انسانی حسیات سے عاری جسم، جسمانی لذت کے حصول کاذریعہ۔ سو چیئے تو حیرت و افسوس کا کیا مقام ہے، مغرب میں مرد کی پسلی سے نکالی گئی دوسرے درجے کی مخلوق عورت کو ابھی کل تک، شیکسپیئر کے انگلستان میں Witchcraft کے الزامات کے تحت سرعام بد ترین اذیتیں دے کر مار دیا جاتا تھا۔

مغربی خواتین (گو قلیل تعدادمیں ) اس نتیجے پر پہنچ چکی تھیں کہ مرد اور عورت کے درمیان سماجی نا برابری کا مرکزی نقطہ مختلف جسمانی خدوخال نہیں بلکہ معاشیات کے حصول کے غیر مساوی مواقع ہیں، جنہوں نے مرد کو کمانے والا اور عورت کو مانگنے والا بنا رکھا ہے۔ اسgive and take کے نظام نے مرد کو تعظیم اور عورت کو تذلیل سے روشناس کروایا ہے۔ لہٰذا مغرب میں جب فیمنسٹ موومنٹ کا آغاز ہوا تو اس کا مقصد خواتین کے لیے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا یعنی خواتین کو کمانے کا حق دلوایا جائے۔

 بچوں کی پرورش اور پیدائش کے حوالے سے مردوں کو ان کی ذمے داریاں محسوس کروائی جائیں۔ مرد و عورت کو جسمانی تعلق میں برابری کی حیثیت، قانونی اور سماجی طور پر مساوانہ حقوق، سماج کی تشکیل میں برابری کا کردار۔ وہ بنیادی نکات تھے اس پر افریقی اور مغربی خواتین نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس بات پر دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ مٹھی بھر ان خواتین کو ان کے ممالک میں شدید تنقید و لعن طعن کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں عورتوں کو بغاوت پر اکسانے والی اور مردوں سے نفرت کی علامت سمجھا گیا۔ مگر سائمن ڈی بیور نے جنسی مت بھید کے خاتمے کے لیے وہ تاریخی جملہ لکھا جو آج بھی جنسی امتیاز کے خاتمے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ:

one ’s sex is just a biological fact، but one‘ s gender identity is socially constructed

فیمنسٹ تحریک کا دوسرادور جو کہ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد شروع ہوانسبتاً زیادہ طاقتور تھا۔ جس میں ”خواتین بھی انسان ہیں“ کے سلوگن کے تحت خواتین کو بحیثیت انسان، مردوں کے مساوی اپنے حقوق منوانے کے لیے بڑے پیمانے پر عملی جدوجہد شروع کرنا پڑی۔ اس دور میں جنس کی بنیاد پر تفریق کے علاوہ خواتین کو Empowerکرنے اور انھیں اپنی شخصیت کے شناخت کے بحران سے نکلنے پر زور دیا گیا تھا۔ خواتین کو احساسِ محرومی سے نکالنے اور اس کے انسانی کردار کے احساس کو اُجاگر کرنے کی ضرورت پر کام ہوا کہ سماجی، سیاسی اور فکری طور پر عورت اور مرد کا جوہر سماجی تشکیل ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4