جمہوریت اور کیپٹل ازم کا جوڑ کب ہوا؟


امریکا میں جمہوریت کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سن 1932ء میں نئے امریکی صدر کا انتخاب کیا گیا، جس نے فری مارکیٹ کو ریاستی طاقت سے کنٹرول کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جمہوریت کی مخالفت کی بجائے ایک نئے طریقے سے اسے مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی دماغ سازی کرنے، ان کے لاشعور میں چھپی خواہشات اور جذبات سے کھیلنے کی بجائے عوام کے ساتھ ایک نئے طریقے سے ڈیل کیا جائے گا۔ اور یہاں سے ’’دا نیو ڈیل‘‘ تھیوری کا آغاز ہوا۔

روزویلٹ کا خیال تھا کہ فری سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی جدید معیشتوں کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس امریکی صدر کا خیال تھا ایک عام آدمی کو حکومتی پالسیوں سے متعلق بتایا جا سکتا ہے اور پالیسی سازی میں ان کی رائے بھی لی جا سکتی ہے۔ یہ خیال پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کو ماہر سماجیات جارج گیلیپ کی مدد حاصل ہوئی۔ یہاں سے پہلی مرتبہ عوامی رائے جاننے کے لیے گیلپ سروے کروانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور آج تک گیلپ سروے کا سلسلہ جاری ہے۔

گیلپ اور ایلمو روپر (سیاسی سروے کروانے والا مشہور امریکی سائنسدان) دونوں نے ہی بیرنیز کے اس نظریے کو مسترد کر دیا تھا کہ انسان لاشعوری فورسز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اور انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پولنگ کروانے یا سروے کروانے کے نظام کے پیچھے یہ تھیوری تھی کہ لوگوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور یہ جانا جا سکتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے پہلے امریکا میں یہ نظریہ زور پکڑ چکا تھا کہ غیر عقلی فیصلہ سازی کی وجہ سے ہر ایک یا عوام کی اکثریت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

1936ء میں روز ویلٹ نے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ بڑے کاروباری اداروں کے خلاف کنٹرول مزید سخت کر دیں گے۔ روزویلٹ کو دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب کر لیا گیا لیکن دوسری جانب کارپوریشنوں کے لیے یہ ایک ’’امریت‘‘ کا آغاز تھا اور انہوں نے ’’دا نیو ڈیل‘‘ تھیوری کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ امریکا میں دوبارہ طاقت حاصل کرنے اور اس جنگ کا مرکزی کردار ایک مرتبہ پھ ایڈروڈ برنیز اور اس کا ایجاد کردہ شعبہ پبلک ریلشنز تھا۔

Edward Bernays is credited with creating the profession of public relations. 

پبلک ریلیشنز کے ایک مورخ اسٹیورٹ ایوین لکھتے ہیں، ’’ نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز، جو آج بھی قائم ہے، نے ایڈورڈ برنیز کی سربراہی میں فیصلہ کیا کہ عوامی سطح پر ایک بڑی مہم چلائی جائے گی، جس کے تحت بڑے کاروباری اداروں اور عوام کے درمیان جذباتی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور بیرنیز کے طریقے بڑی سطح پر استعمال کیے جائیں گے۔‘‘

اس مہم کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ترقی کے پیچھے حکومتوں کا نہیں بلکہ کاروباری اداروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایڈورڈ برنیز اس وقت جنرل موٹرز کے مشیر تھے اور اس ملک گیر مہم کے لیے سینکڑوں پبلک ریلیشنز مشیروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر مشہوریاں تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، بل بورڈز لگائے گئے اور اخبارات کے ادارتی صفحات میں منظم طریقے سے یہ پیغام پہنچایا گیا۔
اس کے بعد حکومت اور فری مارکیٹ کے مابین جنگ مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس کے ردعمل میں حکومت نے ایسی فلمیں تیار کیں، جن میں بتایا گیا کہ بڑے کاروباری ادارے کس طرح پریس کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہی دور تھا جب سرکاری ٹیلی وژن پر مشہوریاں چلانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ لوگوں کی دماغ سازی نہ کی جائے اور اس کے متبادل کے طور پر پرائیویٹ میڈیا میدان میں ابھر کر آیا تھا، جس کا کام سرمایہ کاروں کے مفادات کو ترویج دینا تھا۔

دوسری جانب سرمایہ کاروں کی مہم حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھی۔ 1939ء کو امریکا میں ورلڈ فیئر کا انعقاد ہوا۔ بیرنیز نے اسے ڈیموکریسی اور امریکن بزنس کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایڈروڈ برنیز کی بیٹی آن بیرنیز اس کے بارے میں کہتی ہیں، ’’میرے والد کے لیے یہ ورلڈ فیئر طاقت کا توازن رکھنے کا موقع تھا اور وہ توازن یہ تھا جمہوریت میں کیپٹل ازم۔ یعنی جمہوریت اور کیپٹل ازم اور ان دونوں کی شادی۔ میرے والد نے لوگوں کو اس طرح مانی پولیٹ کیا کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بغیر جمہوریت کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘‘

Franklin D Roosevelt

یہ ورلڈ فیئر ایڈروڈ بیرنیز کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ دوبارہ جمہوریت کی وہ شکل سامنے آئی تھی، جس میں روز ویلٹ کے خواب کے برعکس عوام فعال شہری کا نہیں بلکہ غیر فعال صارفین کا کردار ادا کریں گے۔ کیوں کہ برنیز کے مطابق جمہوریت میں عوام کو کنٹرول کرنے کی یہی ایک چابی ہے۔

انسانوں کے عقلی اور غیر عقلی رویوں کے بارے میں اس وقت جاری بحث پر یورپ میں ہونے والے واقعات نے بھی اثر ڈالا۔ 1938ء میں نازیوں نے آسٹریا پر حملہ کر دیا۔ مئی 1938 میں فرائیڈ اپنی بیٹی آنا فرائیڈ کے ساتھ لندن منتقل ہو گئے۔ اس وقت لندن بھی جنگ کے تیاریوں میں تھا اور 1939ء میں جنگ کے آغاز سے تین ہفتے بعد فرائیڈ کینسر کی وجہ سے وفات پا گئے۔

اس جنگ کی وجہ سے امریکی حکومتی اہلکار اس بات کو تسلیم کرنے لگے کہ انسان کے اندر انتہائی خطرناک قوتیں موجود ہیں، جنہیں کنٹرول کیا جانا ضروری ہے۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ کی بے شمار لاشوں کا حوالہ دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اگر انسانی لاشعوری خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اب کے بار ایڈورڈ برنیز صرف حکومت نہیں بلکہ سی آئی اے کے لیے بھی کام کرنے لگے اور فرائیڈ کی بیٹی آنا فرائیڈ بھی امریکا میں بہت بااثر ثابت ہوئیں۔ آنا فرائیڈ نے بچوں کی نفسیات کی بنیاد رکھی اور ان کی تھیوری یہ تھی کہ انسان کو اپنی غیر شعوری اور غیر عقلی فورسز کو قابو کرنا سکھایا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد امریکی حکومت نے عوام کی ’’اندرونی نفسیاتی زندگی کو منظم‘‘ کرنے کے بڑے پیمانے پر پروگرام شروع کیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments