مودودی اور باچا خان کی جان چھوڑیں، فیصلہ کریں


 

\"wisi

چارسدہ میں یونیورسٹی پر حملے سے بہت ہی سیانے لوگوں نے ایک مودودی باچا خان کی بحث شروع کر دی ہے۔ ان دونوں اصحاب کے ماننے والے یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں جن کو علی العلان نشانہ بنانے کا فیصلہ سنایا ہے شدت پسندوں نے۔ ہم لوگ اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ ان دونوں میں سسے کونسا بزرگ حملے کا زمہ دار تھا۔

چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو گارڈ نے یا شائد پولیس نے انہیں دیکھ لیا تھا جس کے بعد انہیں فائر کر کے انگیج کیا جس کی وجہ سے حملہ آور اپنے ہدف کی جانب جانے میں ناکام رہے اور ہاسٹل کی طرف بھاگ نکلے۔ پولیس کی کاروائی بروقت تھی اور کارکردگی شاندار بھی رہی۔ فوج کے آنے تک انہوں نے دہشت گردوں کو ہاسٹل تک محدود رکھا۔

ایک کام اور بھی ہوا جس کا زکر اتنا نہیں ہوا یونیورسٹی کے ساتھ ملحقہ گاؤں سے لوگوں نے یونیورسٹی کے ہر جانب گھیرا ڈال لیا جس کے ہاتھ میں جو آیا وہ لیکر یونیورسٹی کے باہر موجود رہا ان لوگوں میں منتخب نمائندے بھی سب سے آگے تھے۔ گاؤں والوں کی اس جرات نے دہشت گردوں کے فرار کے راستے ختم کر دئے۔

یہ سب بہت حوصلہ افزا ہے کہ لوگ باہر نکلے ہیں۔ صرف اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے اس عزم کو سلام جو بتاتا ہے کہ ہم نے خوف سے شکست نہیں کھائی۔ آج یونیورسٹی دوبارہ کھل گئ ہے یہ بھی انکار ہے خوفزدہ ہونے سے۔ جھکنے کے لئے نہ استاد تیار ہیں نہ طالب علم۔ ماؤں نے بچوں کو پھر تیار کر کے بھیج دیا ہے۔

سید مودودی اور باچا خان بڑے لوگ تھے اور دونوں مختلف سوچ کے لوگ تھے۔ باچا خان اپنے ماننے والوں یا اپنے وارثوں کی بد اعمالیوں کے زمہ دار نہیں ہیں۔ انکی سوچ زندہ ہے۔ انکے تربیت یافتہ لوگ دوسروں سے مختلف ہیں اور یہی لوگ انکی پہچان ہیں۔ وہ سب انہی کے ورکر تھے جنہیں اس لئے مار دیا گیا کہ وہ عدم تشدد پر یقین رکھتے تھے، دہشت گردی کو چیلنج کرتے تھے اور اپنے لوگوں کے درمیاں رہتے تھے۔ ہم باچا خان کے بعض نظریات سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی ان کا عدم تشدد کا فلسفہ ملک کی موجودہ صورت حال کے لئے بہتر ہے۔

میاں افتخار کی قربانی اس کے بعد ان کا طرز عمل کسی کو یاد ہے یا بھول گیا۔ باچا خان نے دفن ہونے کے لئے جلال آباد پسند کیا تو کوئ گناہ نہیں کیا، وہ اپنی پختون قوم کو ملائے رکھنے کی ایک دور رس سوچ رکھتے تھے۔ دنیا دیکھے گی کہ انکا یہ فیصلہ بھی ایک دن امن کی نوید ہی ثابت ہو گا۔

ستر کی دہائی میں پختون قوم پرستوں نے کابل جا کر وہاں بیٹھ کر ایک تحریک اٹھائی جو متشدد تھی، ناکام رہی کہ باچا خان کی فکر سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کیا تھا؟ صرف اتنا کہ برابر کے اتنے حقوق مل جائیں کہ وہ پاکستان میں رہ کر سیاسی کردار ادا کر سکیں۔ جب جمہوریت نے انہیں راستہ دیا تو اس تحریک کے لوگ پارلیمانوں میں دکھائ دیے، اپنا جمہوری کردار ادا کرتے ہوئے۔

کوئ ایسا ایک قومی واقعہ اور تحریک ایسی نہیں ہے جب باچا خان کے پیروکار اس قومی تحریک سے الگ رہے ہوں۔ فاطمہ جناح کا الیکشن ہو یا مارشل لاؤں کی مخالفت ہو، عدلیہ بحالی تحریک ہو یا ایک پنجابی وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ زبردستی گھر بھجوائے، پختون قوم پرست لائن کی درست طرف ہی کھڑے پائے گئے۔ یہاں تک کہ پختون غلام اسحق کے خلاف پنجابی نوازشریف کی حمائت میں بھی۔

جماعت اسلامی مارشل لاؤں کی حمائت کا ایک ماضی رکھتی ہے۔ متشدد تحریکوں مسلح لشکروں کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ پھر اپنے ہی سابق ساتھیوں سے کچھ فاصلہ اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے، جب انہیں اپنے اعمال پر سزائیں دی جاتی ہیں۔ لیکن یہ سب ماضی ہے اس سے نہ فرار ممکن ہے نہ اسے چھپایا جا سکتا ہے۔ آج کی جماعت کا چہرہ سراج الحق ہیں جن کا دل اسلامی لیکن دماغ سیاسی ہے۔ ان سے امید برقرار ہے کہ وہ اپنا فوکس بلٹ کی بجائے بیلٹ پر ہی رکھیں گے۔

یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ لوگوں نے باچا خان یونیورسٹی کے باہر دہشت گردوں کو مسلح ہو کر صرف گھیرا ہی نہیں اپنا فیصلہ بھی سنایا ہے۔ ہم نظریاتی بحث میں الجھے رہے تو لوگ اپنے فیصلے خود کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments