ویرانے میں میخانے کی زیارت


ہم گاؤں سے چلے تھے تو عزم کے سوا کچھ دیگر راہ سازی دستیاب نہ تھی۔ اب کہیے تو وہ بھی نہ رہی۔ اک زیست کا زیاں ہے تو کیے جاؤ میاں۔ راولپنڈی سٹیشن سے باہر نکلا تو قطار اندر قطار اپنے بھائی بندوں کی نسوار کی دکانیں اسیتادہ تھیں۔ گمان ہوا قندھاری بازار نکل آیا ہوں۔ اسلام آباد کے سنسان جنگلوں کی جو آس دل میں ساتھ لائے تھے، ان آبگینوں کو ایک ٹھیس سی لگی۔ پرواہ مگر کوئی نہ تھی۔ جس دیس سے میں چل کر آیا تھا وہاں کی ویران گلیاں میرے افلاس کی گواہ تھیں۔ صرف میں ہی نہیں وہ پورا سماج افلاس زدہ تھا۔ ایسے میں بوسیدگی سے سامنا ہونے میں کیا خوف۔ ایتھنز کے اجڑے نیم دائروی معبد خانوں کے احاطے میں کھڑا دیو جانس کلبی ہوتا تو کہتا کہ ہاں میرا ماضی اتنا پرشکوہ تھا کہ مجھے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔

دو سو روپے کرائے والے ہوٹل میں ایک کمرہ لیا۔ اپنا بوریا وہاں پھینکا کہ میلا بستر ان کی کرم فرمائی کے سبب دستیاب تھا۔ صبح ایک نمبر ویگن میں بیٹھ کر سول سیکریٹریٹ کے سامنے اترتا۔ یہ میری زندگی کے تلخ ترین دن تھے۔ شام کو اسی ویگن میں واپس آکر ریلوے اسٹیشن پر بیٹھ جاتا۔ میرے پاس قلیوں اور ڈھابے چلانے والوں کی ان گنت کہانیاں ہیں جنہیں میں کبھی لکھوں گا۔ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد۔ خستہ بنچوں پر بیڑیاں پیتے ٹی ٹی، رخصت ہوتے مسافروں کے چہرے، ان پر لکھی ہوئی ہزار داستانیں۔ زندگی کے خس و خاشاک یہاں ٹکڑوں میں دستیاب تھے اور ہر ٹکڑا ایک نئی داستاں۔ دسمبر کی ٹھنڈی بارش میں ریلوے اسٹیشن کے ٹین کی چھت جگہ جگہ سے ٹپکتی تھی۔ یہ منظر مرغوب ضرور تھا مگر اجنبی نہیں تھا۔ چھت سے ٹپکتے قطروں سے شناسائی کوئی اچھی یاد بھلا کیسے ہو سکتی ہے اور اس پر جبر، دسمبر کا بجھتا ہوا سورج!

ایک دن سر راہ ایک شناسا سے ملاقات کی سبیل نکل آئی۔ راولپنڈی کے زرعی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ کچھ حال ٹھکانے کی خبر لی تو معلوم ہوا ہم دونوں دست کش تھے۔ یوں راہ و رسم کا دوبارہ آغاز ہوا۔ ایک دعوت پر ان کے کمرے جانا ہوا۔ یہ کمرہ عین اسد فاطمی کا کمرہ تھا۔

اسد فاطمی ہمارے نیم دوست اور یار من ابوبکر کے پورے دوست ہیں۔ ان دونوں میں قیس کا جنوں پانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں کون پہلے غرقاب حسن ہوتا ہے۔ ابوبکر نے بتایا کہ وہ اپنے کتے سمیت اسد فاطمی کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔ یہ ہجرت سے زیادہ وہ اعتراف گناہ ہے جو ایک سالک بپتسما لینے کے فوراً بعد پادری کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کرتا ہے۔ اس نے جس غم سے نجات پانے کی خاطر اسد فاطمی کی طرف مراجعت کی ہے اسد اسے اور سوہان روح بنا دے گا۔ اسد فاطمی میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ کہانیاں اچھی لکھتا ہے، خطاطی کرتا ہے اور زخم کریدنے میں ماہر ہے۔

اسلام آباد میں گاؤں بتا کر کم و بیش اتنا سفر کرنا پڑا کہ آدمی اتنے میں لاہور پہنچ جائے۔ اسے گاؤں کہنا تو درست ہے مگر اس کا نام غریب آباد ہونا چاہیے تھا۔ یہ عملاً غریب آباد تھا جس میں جگہ جگہ چند نو دولتیوں نے اشٹاموں پر سستی زمین خرید کر عشرت آمیز مگر روایتی یک منزلہ پکے گھر بنا رکھے تھے جنہیں بوجوہ وہ کوٹھیاں کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ تنگ گلیوں میں جہاں زندگی اپنے پورے وجود کے ساتھ برہنہ کھڑی سماج کے اقدار پر مسکرا رہی تھی۔ یہ خستہ گلیاں اور وحشت زدہ مکانات یہ لوگ اپنے اسلاف سے ورثے میں لائے تھے۔ ان کے اسلاف کے پاس بھی تن اور من کی ضروتوں کے سوا دیگر کوئی عیاشی دستیاب نہ تھی۔ انہیں خبر بھی ہوتی تو وہ کیا اکھاڑ لیتے۔ ہماری تہذیب کا افلاس سے پرانا رشتہ ہے۔

اسد فاطمی کا گھر ایک گنجان آباد گاؤں کے آخری سرے پر کھڑی ایک ایسی کوٹھی تھی جسے کسی ڈیری مالک یا خوشحال کسان نے کھیت کے کنارے دوسری شادی کی آس میں بنا رکھی ہو مگر عمر رواں نے مہلت نہ دی ہو۔ گاڑی پارک کرنے کے لئے ایک مناسب کار پورچ موجود تھا بشرطیکہ آپ گاڑی سالم حالت میں وہاں تک پہنچا سکیں۔ ایک ہال نما بڑا کمرہ جس کا فرش سستے ماربل سے مزین تھا۔ اسی کے اندر دو کمرے اور کچن۔ سستی ٹائلوں سے مزین بغیر چھت کا ایک لیٹرین، نیز باہر ایک اضافی کمرہ جو مرفی اور ایسی دیگر ضروریات کے لئے خاص تھا۔

اسد فاطمی کا فرش پر بچھا ہوا بستر، کمرے کے حبس زدہ گوشے، جگہ جگہ بجھے ہوئے سگرٹوں کے ٹکڑے، رنگوں کے چند ڈبے جو گرد کی دبیز تہیوں میں دبے ہوئے تھے، کنارے سے جل کر کالک لگی سٹیل کی پلیٹیں جن میں باسی سالنوں کا میل باقی تھا، فاطمی کے کارزار ہستی کے گواہ تھے۔ اسد فاطمی کے سامنے ہم اسے اس کی طبع زاد طبعیت کے استعارے قرار دیتے ہیں۔ دوستی کا بار خاطر نہ ہوتا تو اس صریح گند پھیلانے کی عادت کو تعریف میں بدلنا کیونکر ممکن ہوتا؟

یہاں موجود مکڑی کے جالے گواہ تھے کہ فاطمی فاقوں سے دست کش ہو چکا ہے۔ خدا فاطمی کو رزق دیتا ہے۔ فاطمی گندی پلیٹیں چھوڑ جاتا ہے۔ مکھیاں یہاں رزق تلاش کرنی آتی ہیں اور یوں مکڑی کے خوراک کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے۔ کارخانہ قدرت ایسے ہی چلتا ہے۔ فاطمی البتہ اپنی توہم پرستی کے سبب اپنے پیٹ کی دوزخ کا سامان کرنے پر خدا کے بعد مکڑی کا شکر گزار بھی رہتا ہے۔

یوں فاطمی کا کمرہ دیکھ کر مجھے اس قاری صاحب کا کمرہ یاد آیا جو زرعی یونیورسٹی کے پاس ایک ایسے ہی مکان میں میرے شناسا کے روم میٹ تھے۔ قاری صاحب کی آنکھیں واضح پیغامات دے رہی تھیں کہ حضرت علت مشائخ میں مبتلا ہیں۔ دوست کو اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی دھن میں مگن رہے۔ چند بعد ہمارے ہاسٹل میں کمرا تلاش کرنے آئے تو قاری کی علت پر مہر ثبت کی۔

فاطمی کایہ گھر سن ستر کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے اس کچی بستی کا سا منظر پیش کر رہا تھا، جہاں میونسپل کے نلکے سے قطرے ٹپک رہے ہوں اور ایک اندھی بوڑھی بالٹی رکھ اس کے بھرنے کی منتظر ہو۔ بیک گراونڈ میں کوئی اداسی دھن چل رہی ہو۔ گھر کے صحن میں مگر آپ کو ساحر و ساغر آج بھی افلاس و جنوں سے رست و خیز ہوتے نظر آ سکتے ہیں۔ نارسائی اپنی جگہ پہ اس گھر میں استعارے کی زندگی آباد رہتی ہے۔

یہاں شعر کا ظہور ہوتاہے۔ زرد روشنیوں اور محرابی کھڑکیوں کی کہانیاں تخلیق ہوتی ہیں۔ الجھی گھتیاں سلجھانے اور سلجھی گھتیاں الجھانے کا تماشا شب و روز چلتا ہے۔ اس کے مکین نار سیال میں جلنے کے فن سے واقف ہیں۔ سو کبھی کبھی چل کر ویرانے میں میخانے کی زیارت کرنے میں کیا حرج ہے بھلا۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah