پنجابی، پنجابی بولنے سے کیوں شرماتے ہیں


اماں! آپ ہم سے پنجابی کیوں نہیں بولتیں۔ آپ نے ہمیں سکھائی بھی نہیں
میری امریکہ میں جرنلزم پڑھنے والی، فر فر انگریزی بولنے اور لکھنے والی بیٹی، سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔

” آپ کو کیسے خیال آیا بیٹا؟ “
” اماں! وہ خالو عرفان ملک ہیں نا، پنجابی کے شاعر اور آپ کی دوست کے میاں۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتی ہوں وہ مجھ سے پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ اور مجھے نانی ماں کی یاد آتی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتی تھیں نا“۔

اس سوال نے دماغ کے بہت سے نہاں دریچوں کو وا کر دیا، ماضی میں جھانکنا عذاب ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ یہ کھڑکی خود بخود کھل جاتی ہے۔
” ہمیں پنجابی کبھی اچھے نہیں لگے، بہت اونچا بولتے ہیں، اردو بولتے ہوئے لہجہ انتہائی گنوار ہوتا ہے، چاہے جتنا بھی پڑھ لکھ جائیں“۔
ہماری کراچی سے تعلق رکھنے والی اردو دان دوست کہہ رہی تھیں۔

” میں بھی تو پنجابی ہوں“۔
” ہاں مگر لگتی نہیں ہیں“۔
” کیا مطلب“۔
” آپ کا لہجہ بہت صاف ہے اور تلفظ بہت اچھا“۔

میرے بچپن کی یادوں میں کچھ یادیں بہت اثر انگیز ہیں۔ ہمارے شہر میں محرم بہت اہتمام سے منایا جاتا تھا۔ مرد حضرات شام کو امام بارگاہ جاتے اور خواتین صبح کو مختلف مجالس میں، جن کا اہتمام کئی گھرانے ہر محرم میں کرتے تھے۔ گویا یہ ان کی مخصوصی مجالس تھیں۔ سب سے اہم تین گھر تھے۔ پہلی مجلس صبح نو بجے ہوتی۔ دوسری بارہ بجے اور تیسری تین بجے۔ خواتیں ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے گھر کو روانہ ہوتیں۔ اتفاق سے تینوں گھر دہلی اور لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے اہل زبان تھے۔ پہلے گھر کے اہل خانہ میں ایک مشہور شاعرہ بھی تھیں جو اپنا لکھا ہوا مرثیہ پڑھتیں۔ دوسرا گھر دہلی والا کہلاتا۔

ہماری اماں شرکت کی انتہائی شوقین، صبح صبح گھر کا کام نبٹاتیں اور ہمیں لے کر روانہ ہو جاتیں۔ مرکزی کمرا اور برآمدے فرنیچر سے خالی ہوتے اور چاندنیاں بچھی ہوتیں۔ سوز خوانوں کے لئے مرکزی کمرے میں ایک تخت کے سامنے مائک لگا ہوتا اور ارد گرد پہلے آئیے کی بنیاد پہ خواتیں بیٹھتیں۔ جب مرکزی کمرا بھر جاتا، پھر برآمدے کی باری آتی۔

خواتیں کالے کپڑوں میں ملبوس ہوتیں۔ غرارے، ساڑھیاں، کھڑے پاجامے اور چوڑی دار سب دیکھنے کو ملتے۔ چونکہ یہ سب لباس پنجابی خاندانوں میں نہیں پہنے جاتے تھے سو میرے لئے یہ سب بہت پرکشش ہوتا۔

اس سب ترتیب میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوتی کہ پنجابی حلیے والی خواتین کو مرکزی کمرے میں بیٹھنے سے بہانے بہانے سے منع کیا جاتا۔ اور کوشش یہ کی جاتی کہ پنجابی یا اردو دانوں کے نزدیک پینڈو نظر آنے والی خواتین کو باہر برآمدے میں بٹھایا جائے اور سب غراروں اور ساڑھیوں کو مرکزی کمرے میں جگہ دی جائے جہاں مجلس کے ساتھ ساتھ پاندان کا دور بھی چلتا۔ ہم چوں کہ شروع سے محفل باز تھے اس لئے جب ہماری اماں برآمدے میں ٹک جاتیں، ہم ان کا برقع کھینچتے، امی اندر چلیں نا۔ نہیں بیٹا! یہیں ٹھیک ہے۔

” کیوں امی! اندر ابھی بہت جگہ ہے“۔
” نہیں بیٹا! دیکھو یہاں سے مجلس کے بعد نکلنا آسان ہو گا، اندر بہت رش ہو جائے گا“۔

اماں جو رویے بھانپنے میں بہت تیز تھیں اور بہت انا پسند بھی، کبھی اندر جا کے نہیں بیٹھیں۔ کبھی کبھی جب ہم بہت ضد کرتے، ہماری امی ہمیں اندر بٹھا کے خود باہر آ جاتیں۔ اس سب کی ہمیں تب سمجھ تو نہیں آئی مگر لاشعور نے اس سب کو محفوظ کر لیا اور بہت بعد میں سمجھ آیا کہ اردو دان خواتین، جو اپنی تعلیم اور اپنے رکھ رکھاؤ والی ثقافت پہ بہت نازاں تھیں، اپنے رویے سے مقامی پنجابی عورتوں کو کم تر ثابت کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ لکھنوی تہذیب آباد تو پنجاب میں ہو گئی تھی مگر احساس برتری کا شکار ہو کے مقامی لوگوں میں رچنے بسنے کی بجائے ان کو کم تر گردانتی رہی۔ اور ان کے رویے واضح طور پہ تضحیک آمیز ہوتے۔

اگلی یاد ان دنوں کی ہے جب مقرر بننے کا شوق سر پہ سوار تھا اور آپا ہمیں تیاری کروایا کرتیں۔ ہماری کم زوری شعر پڑھنا تھے۔ ہماری مادری زبان کا اثر شعروں کی ادائی میں آ جاتا اور آپا کی ایک اہل زبان دوست ہمارے پینڈو لہجے پہ خوب ہنستیں۔ ہم کھسسیانی ہنسی ہنستے اور آپا خوب جھنجلاتیں۔ آپا پہ اس کا اثر یہ ہوا کہ انھوں نے ہم بہن بھائیوں سے پنجابی چھوڑ، اردو میں بات کرنا شروع کر دی۔ ہمارے اماں ابا ہم سے پنجابی بولتے اور آپا اردو۔ آپا نے یہ ریت قائم رکھی اور اپنے بچوں سے بھی اردو بولی۔ یہ آغاز تھا پنجابی کلچر اور زبان کے احساس کم تری میں مبتلا ہونے کا۔

بڑے ہوئے، ہوسٹل پہنچے، پاکستان کے ہر صوبے سے بھانت بھانت کی لڑکیاں۔ گھروں سے تعلق خط سے ہوتا، یا پھر ہوسٹل کا اکلوتا فون جو کامن روم میں تھا اور سب کے گھر والے اس پہ بات کرتے۔ ویک اینڈ پہ خوب رش ہوتا اور ہر کسی کی بات ہر کوئی سننتا۔ ہم حسب عادت اردو میں بات کرتے اور سب پنجابی لڑکیاں بھی ڈھیلے ڈھالے پنجابی لہجے میں اردو میں بات کرتیں۔

ہم وہ پہلی نسل تھے جنہوں نے پنجابی کا دامن جھٹک کے اردو میں پناہ لی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہماری نسل کے ماں باپ جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، نے اپنی اولاد کی آنکھوں میں اعلی تعلیم کے سپنے سجائے تھے اور اولاد اپنی زبان اور کلچر کے متعلق کم تری کا شکار ہو گئی تھی جس کے ذمہ دار ٹھٹھا اڑانے والے اردو دان تھے۔ ہمارے لئے انتہائی اچنبھے کی بات تب ہوتی جب پٹھان، سندھی، بلوچ اور گلگتی لڑکیاں دھڑلے سے اونچی آواز میں اپنی مادری زبان میں اپنے گھر والوں سے بات کرتیں اور کسی کے کسی انداز میں کوئی شرم ساری نہ ہوتی۔

وقت آگے بڑھا۔ میاں صاحب اور بچوں کے ساتھ ہم اردو ہی بولتے۔ بچوں کو ہم نے پنجابی کا پینڈو لہجہ سیکھنے ہی نہیں دیا۔ اور سب بہن بھائی اور کزنز یہی کر رہے تھے۔ اگر چہ جب خود احتسابی کا دورہ پڑتا، صاحب اکثر اپنی حیرت کا اظہار کرتے کہتے ”جب کبھی پٹھان جرنیل یونٹ کا دورہ کرنے آتے ہیں، اور اگر کسی پٹھان کو دیکھ لیں چاہے وہ سپاہی ہی کیوں نہ ہو، عہدے اور امتیاز کی پروا کیے بغیر اس سے پشتو میں حال چال دریافت کرتے ہیں اور یہی حال باقی سب صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ہے۔ سوائے ہمارے پنجابی بھائیوں کے جو آپ سے کبھی بھی پنجابی نہیں بولیں گے اور پنجابی ہونے کی آشنائی کا اظہار بھی نہیں کریں گے“۔

سعودی عرب پہنچے، بہت بڑا اسپتال، اور پاکستان کے سب صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اور وہی صورت احوال۔ اب تک ہمیں پنجابی پینڈو کے تصور سے چڑ ہو چکی تھی۔ ہماری ایک دوست پہلے سے وہاں کام کر رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ سب پنڈی لاہور والے، پنجابی بولنے سے کتراتے ہیں اور اگر کوئی یہ غلطی کرے تو اس کے بیک گراؤنڈ پہ ہنسا جاتا ہے۔ اور اردو اسپیکنگ اس کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش۔ یہ سن کر ہم نے کچھ ٹھان لی۔ ہمارے اعزاز میں سب پاکستانیوں کی طرف سے خوش آمدید کی دعوت کی گئی۔

ہم دعوت میں گئے اور خوب ٹھاٹ سے گئے۔ دوسروں تک ہماری شہرت سینیر ڈاکٹر ہونے کی پہنچ چکی تھی۔ ماڈرن حلیہ، ڈگریوں کی لسٹ اور ہمارا دھڑلے سے سب سے پنجابی میں بات کرنا۔ بہت سی خواتیں کے برج اس دن الٹ گئے۔ ہم دو سال وہاں رہے اور ہر دعوت میں پنجابیوں سے علی اعلان پنجابی بولی، اہل زبان سے اردو، انگریزوں سے انگریزی اور عربوں سے عربی۔ بعض دفعہ ہم پھرتی سے چاروں زبانوں کو موقعے کی مناسبت سے استعمال کرتے اور ہمیں اپنے لوگوں کے چہروں پہ صاف حیرت نظر آتی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2