نہیں چاہیے چادر چار دیواری


میں نے ایک اسے آدمی سے شادی کی جس کو میری امی نے میرے لئے پسند کیا کیونکہ وہ مجھے پسند کرتا تھا۔ شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ بندہ بائی سیسکیول ہے۔ انہیں دنوں میں ہماری ایک ملازمہ کی بیٹی نے بالکل ہی ایسا بیان دیا تھا کہ اس کا شوہر اسے غیر فطری میلان کے لئے کہتا ہے اور کر بھی گزرتا ہے اس بچی کی خوب جگ ہنسائی ہوئی مگر کمی کی ویسے ہی کوئی عزت نہیں لہٰذا اس نائین کو ماں نے شوہر سے چھٹکارا دلا دیا مگر میں بستی بھر میں سب ڈیروں اور ان کے گھروالیوں کے سامنے تضحیک کا نشانہ نہیں بننے سے ڈرتی تھیں۔ سو میں نے 20 فروری 1987 ء کو عورت کی عظمت کی مثال قائم کر دی۔ لاتیں اور گھونسے کھانے کی بعد شوہر کی خواہش پوری کر دی۔ اور میرے سر پر شوہر کی اوڑھائی اوڑھنی موجود رہی۔

استانی مریداں ایک قرآن کی مدرس خاتون تھیں۔ ان کے شوہر کا مزاج خاصا بے باک تھا۔ مگر اْن خاتون نے اپنا معذور بچہ پالا اْس شوہر کی بھی بیروزگاری کے دنوں میں خرچہ اٹھاتیں مگرلوگوں کو اعتراض تھا کہ وہ اپنے شوہر کو منع کیوں نہیں کرتیں۔ وہ خاتون کہتی تھیں اس نے کوئی بدل جانا ہے سو ایک پاکباز خاتون پر شوہر کی دلالی کا الزام لگا اور وہ عورت اف کیے بغیر کئی کئی دن شوہر کے بغیر گزار دیتی۔

میرا بھی یہی ماننا تھا کہ جس کو میری توجہ اور محبت اور محنت نہ بدل سکی وہ میرا واویلا مچانے پر کیا بدلے گا۔ سو میں نے اپنے شوہر کے پرائی عورتوں سے تعلقات کو یکسر نظر انداز کیے رکھا۔ مگر میری اس خاموشی پر مجھے سسرال سے استانی مریداں کا لقب ملا۔ میں شروع سے ہی لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرنے والی عورت ہوں۔ مجھے میرے حالات کا بہت علم تھا میں خاموشی میں عافیت کی زندگی گزار رہی تھی کہ ایک ماہ مسلسل شوہر کے گھر نہ آنے پر اور بستی میں اپنی معشوقہ کو مکان دینے کے واقعہ پر سسر سے شکایت کی۔

اس شکایت نے میرے حالات تو نہ بدلے البتہ ایک ٹھپہ لگ گیا کہ میں ایک مرد کو قابو میں نہیں کر سکتی (میری غلطی) اس کے بعد شوہر کی قمیضوں سے لپ اسٹک کے داغ دھونا اور شلواریں الگ کرکے دھونا میرے حصے میں آیا۔ وہ پاکیزہ ہوجاتا ہر غسل کے بعد۔ آٹے کا دیا بن کر رہی گئی کہ اگر اندر رہی تو چوہے کھائیں گے اور اگر بچ کر باہر نکلی تو کوے نوچیں گے۔ میں طوائف سے بھی بدتر رہتی تو شوہر خوش رہتا اور میں پاکیزہ۔ مگر میں جانتی تھی کہ میں کتنی ناپاک ہوں۔

اپنے آپ سے سوندھی مٹی کی بنی عورت کی خوشبو کو جاتا دیکھ رہی تھی شوہر عزت پر پاؤں رکھ دے تو کیا بیوی عزت دار رہتی ہے۔ اچھی سے اچھی شراب گھر میں موجود ہوتی مگر میں نہ پیتی تو اس نے راتوں کو گھر آنا چھوڑ دیا۔ اس کی سزا مسلسل نظر انداز کیے جانے کی صورت ملی اور میں نے اس رویے کو زبان بند رکھتے ہوئے برداشت کیا۔ اور یوں رفتہ رفتہ میں باقی خواتین کے لئے مثال بنا دی گئی کہ کیسی صبر والی عورت ہے اس سے شوہر کا خیال رکھنا سیکھو۔

آج مجھے ان سب خواتین سے جو میرے نقشِ قدم پر چلیں معافی مانگنا ہے میں ایک ردی کی ٹوکری کے سوا کچھ نہ تھی میں اس دنیا میں پائی جانے والی نجس ترین مخلوق ہوں۔ نجانے کتنی عورتوں نے مجھے دیکھ کر ایک نام نہاد پاکیزہ عورتوں نے مجھے دیکھ کر ایک نا م نہاد پاکیزہ زندگی کو گلے لگایاہوگا۔ میں ان سب کی گنہگار ہوں۔ میرے گناہوں کی داستان نہ تو اس قدرسادہ ہے نہ ہی مختصر، میں وہ ناپاک عورت ہوں جس نے بچوں کو جوان کر کے اپنے لئے پاکیزہ زندگی مطالبہ کیا تو شوہر گھر چھوڑ گیا۔

تین دن تک وہ ایک ہوٹل میں رہا جہاں پر اس کے خاندان میں میرا مذاق بن کر رہ گیا۔ کہ یہ عورت کہتی بے باک ہے، فحش کلامی کا الزام لگا اور کوئی میری مدد کو آگے نہ بڑھا اور نہ ہی اسے سدھارنے کی کوئی کوشش کی گئی ہاں مگر شراب اور عورت کے ساتھ سب نے وہ تین دن خوب دعوت میں گزارے۔ میرے گھر میں راشن ختم اور فحش گوئی کا الزام الگ، سو میں ہی گئی اور معافی مانگ کر واپس گھر لے آئی اور انہوں نے مجھے اپنا کر پاکیزہ کر دیا۔

میری قیمت بحال ہوگئی۔ کیونکہ میں شوہر کو قبلہ مان کر پھر اسی کے گرد طواف کرنے لگی تھی لوگوں کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے میری یہ گستاخی بھول گئے اور میں پھر سے پاکدامن ہو گئی۔ وہ تحفے ابھی بھی تک میرے پاس پڑے ہیں جب میری خاموشی پر مجھے انعام ملا کرتے تھے۔ قیمتی سے قیمتی پرفیوم لگانے کے باوجود مجھے اپنے اندر سے سڑانڈ آتی تھی میکے میں میری مثال دی جاتی تھی سسرال میں بھی میں دیوی مگر اس چپ نے تکیہ بھگونے کے ساتھ ساتھ مجھے ایک روح اور لوگ کیا کہیں گے، کی جنگ نے آ گھیرا۔

یہ جنگ میرے اندر چل رہی تھی بالکل خانہ جنگی کی طرح اور میں اس جنگ سے تھک چکی تھی۔ احساسات کا روزانہ قتل عام اب مجھے اس سرخی کی جانب لئے جا رہا تھا جسے انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب خون مانگتا ہے اور میں نے اپنے خون سے وہ انقلاب رقم کیا ہے اس انقلاب میں میں بالکل تنہا ایک عورت کی صورت مکمل فورس تھی۔ آج تک حوصلہ جوان ہے مجھے اب اس برداشت کا تاوان ادا کرنا ہے جو مجھے مثال بنا کر کئی دوسری خواتین پر تھوپا گیا۔

میری بہنیں شاید ہی مجھے معاف کریں۔ ایک چاک اوڑھنی جو میں نے سر پر ڈالے رکھی وہ ایک دھوکہ تھیمیری بہنو! میں دیوی نہیں ہوں میں بالکل عام سی عورت ہوں جس نے تم سب کو گمراہ کیا تھا۔ میری وجہ سے آپ سب نے بہت تکلیف برداشت کی۔ مجھے مثال سمجھنے والیو تم سب کو علم ہو ہی چکا ہے میری اصلیت کیا ہے عورت، ہوا کی بیٹی ہوں میں جس کو سوچ اور فہم عطا ہوا اور اس کی اجازت ملی کے اس سوچ کو استعمال کروں۔ ہاں آدم پیغمبر تھے، سراپا تسلیم، میں نے اپنی سوچوں کو اپنے اندر دفن کیا اور ایک دیوی کا روپ دھارا۔

اس بہروپ نے مجھ سے میرا اپنا آپ چھین لیا۔ اگر بات مجھ تک محدود ہوتی تو انتا نقصان نہ ہوتا میں نے تو آپ سب سے، ان سب سے جہاں تک میری رسائی تھی، میں نے اور میرے دیوی کے کردار نے آواز چھین لی، مردوں کو طاقت ور ترین کر تی چلی گئی، آپ سب بولنا چاہتی تھیں مگر ایک ایسی شریعت کی مثال سنا کر آپ کی آواز بھی بند کر دی جاتی تھی جو شریعت میری صورت قائم کر دہ تھی جو دراصل کفر کی بدترین صورت تھی میں نے آپ کی اندر کی طاقت کو سلب کیا میری ایک عورت کی چپ نے آپ سب کو میری طرح مشرک بنا دیا۔

آپ نے اپنا حق مانگنا تھا مگر ایک بہترین عورت کی مثال بنا کر میں آپ کے سامنے پیش کر دی جاتی۔ میں جو مشرک تھی، شوہر پرست ایک لفظ نہیں مگر بلکہ شرک کی ایک اصطلاح ہے۔ میں خدا سے زیادہ شوہر کی خوشنودی کے لئے تردد کرتی رہی اور جب اس شرک کو ترک کیا۔ تب تک نہ یہ صرف خود کا ناقابل تلافی نقصان کر چکی تھی بلکہ آپ کو بھی اس عذاب میں ڈال چکی تھی جو آپ پر قطعی واجب نہ تھا۔ اردگرد کے تمام شوہروں کو خدا بنا چکنے کے بعد آج میں وہ تمام بت توڑ بھی دوں تو گزرے لمحوں کا خراج ادا نہیں ہوسکتا۔

ہردور میں ہمارے یہاں مجھ جیسی دیویا ں پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے شوہروں کو دیوتا بنایا ہے اور پھر وہی دیویاں اپنے بت کو جب خود ضرب لگانے کی کوشش کرتی ہیں تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس قابل رہی ہی نہیں کہ خود اپنا بت توڑ سکیں۔ مفلوج ہو چکی ہوتی ہیں۔ ان پر اتنے پھول چڑھ چکے ہوتے ہیں کہ ان پھولوں کے نیچے ہی ان کی کہیں تدفین ہوچکی ہوتی ہے۔ پھر اس مدفون احساس کا جاگنا کہ میں دیوی نہیں ہوں ایک اندرونی جنگ کا آغاز کرتا ہے۔

روح اور امیج کی جنگ۔ یہ جنگ جس وقت شروع ہوئی میرے اندر اس وقت تک میرا دیوتا تو بہت مضبوط ہو چکا تھا اور اس کی ذمہ داری میں قبول کرتی ہوں کہ یہ طاقت اسے میں نے عطا کی پھر اب کیسا رونا دھونا۔ اب اگر میری ٹرانسفر میشن میرے اردگرد کے لوگوں کو حتیٰ کہ میری پیروکاروں کو بھی قبول نہیں وہ حق بجانب ہیں۔ کیوں کہ میں نے دوغلا پن کیا؟ کیوں شوہر کو خدا کے درجے تک پہنچایا؟ کیوں اپنے اندر کی عورت کو مارا؟ کیوں اس جنگاری کو مصلحتوں کی راکھ کے نیچے دفن کیا جو ازل سے میرے اندر موجود تھی؟

جو بھی کچھ میں نے کیا غلط کیا۔ کیونکہ ان سب حرکات کو کرگزرنے کے باوجود بھی فطرت مر نہ سکی۔ ہوا کی جبلت تبدیل نہ ہوئی۔ رگ و پے میں بس سوال سرایت کرتے چلے گئے جن کاجواب بھی تھا میرے پاس۔ ان جوابات نے مجھے اندر ہی اندر سے توڑا۔ دیمک کی طرح مجھے کھا گئے۔ پھر یوں ہوا کہ اس دیوی پر ایک وزن دار پھولوں کا ہار چڑھایا جانے لگا تو وہ دیوی ریزہ ریزہ ہو کرزمین بوس ہوگئی۔ اندر سے جو عورت برامد ہوئی اس کی شکل تک کوئی نہیں پہنچانتا ایک جبرِ مسلسل سے نکلی ہوئی خودمختار حسین شکل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).