عورت مارچ میں کون عورتیں تھیں؟


سائیں شاہ لطیف فرماتے ہیں ”عورت محبت ہے“۔ خسرو فرماتے ہیں۔ ”عورت عاشق ہے“ جب ہی ان کے کلام میں عشق کا اظہار عورت کی زبانی ہے۔

لیکن بر صغیر کی عورت کا استحصال خسرو کا کلام جھوم جھوم کر پڑھنے والوں اور سننے والوں نے صدیوں مذہب کے نام پر کیا، مغرب میں بھی یہی رواج تھا لیکن طویل جد و جہد کے بعد کم از کم وہاں کے کچھ اچھے مہذب مردوں نے قوانین سخت بنا ڈالے اس طرح سماج سدھار لیا گیا۔

جب کہ مشرق میں مرد ابھی تک کنفیوز ہے کہ کیا کرے۔ مرد عورت کی آزادی کے نام سے بدکتا ہے، نہ جانے عورت کی آزادی سے وہ کیا سمجھتا ہے۔ شاید یہ کہ عورت مرد کے ساتھ سونا چھوڑ دے گی یا ہر مرد کے ساتھ سونا شروع ہو جائے گی، پچھلے دو دن سے محدود سوچ اور اس کا اظہاریہ یہی ظاہر کررہا ہے کہ سماج کا مرد یہی سمجھتا ہے، جب کہ عورت صرف یہ چاہتی ہے کہ وہ گھر سے پڑھنے یا نوکری کرنے کے لئے نکلے تو راستے میں کوئی اسے چھونے کی کوشش نہ کرے، اس کے ساتھ بے ہودہ گوئی نہ کرے۔

چند پوسٹرز سے برافروختہ ہونے والے افراد یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ عورت مارچ میں ہزاروں کا مجمع تھا، وہاں کراچی کی وہ خواتین بھی تھیں جن کے گھر اور دکانیں پچھلے دنوں کراچی میں ہونے والے تجاوزات کے آپریشن کے دوران ڈھا دیے گئے، وہاں کراچی اور سندھ سے لاپتہ ہونے والے افراد کی مائیں۔ بہنیں۔ بیویاں اور بیٹیاں بھی تھیں، اس مارچ میں شہر بھر سے پتھارے اور ڈھابے لگانے والے افراد کے گھروں کی خواتین تھیں جو کراچی شہر میں صفائی مہم کے دوران بے روزگار ہو گئے ہیں اور ان کے گھروں میں ان گنت مسائل ہیں، مزدور طبقے کی خواتین نے بھی شرکت کی۔

اپنی کم تنخواہوں پر بات کی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے بھی حصہ لیا اور اپنے مسائل بیان کیے لیکن ہم کو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی فکر کہاں۔ معاشرے کے غیرت مندوں نے ان کو بھی قتل کیا ہے۔ اسپیشل پرسنز یعنی معذور خواتین نے بھی وہیل چیئرز پر اس واک میں حصہ لیا۔ گھریلو کام کرنے والی خواتین بھی موجود تھیں۔ جن کو ”ماسیاں“ کہا جاتا ہے۔

گھریلو تشدد کے خلاف بھی پوسٹرز تھے۔

سیاسی جماعتوں کی خواتین بھی موجود تھیں۔

”میری بیٹی میرا فخر ہے“ کا پوسٹر بھی تھا۔

جنگ کے خلاف بھی کچھ خواتین پوسٹر اٹھائے نظر آئیں۔ جو کہ بہت مناسب اور حالات حاضرہ کے عین مطابق ہیں کیونکہ خواتین کو ہی ادراک ہے کہ جنگ ہو گی تو کتنا نقصان ہو گا۔ قوم کے مرد تو یہ سوچ کر خوش ہیں کہ دوسرے ملک کی خواتین کا ریپ کرنے کا موقع مل جائے گا۔

پورے ملک میں مختلف واکس اور تقریبات منعقد ہوئیں۔ جو کسی نہ کسی گھمبیر مسئلے میں گھری ہوئی ہیں، بلوچستان کی ماؤں نے اپنے گمشدہ بیٹوں کے خلاف یوم خواتین پر آواز اٹھائی۔ کیا ظلم عظیم ہے کہ ایک ماں یوم خواتین پر اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کاغم منا رہی ہے، ایک بیوی اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کے صدمے میں ہے، ایک بیٹی اپنے باپ کے لئے پریشان ہے، ایک بہن کے پوسٹر پر لکھا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرو۔

لیکن لوگ تو ان پوسٹرز میں محو ہو گئے جو ان کی پسند کے تھے، جب کہ اسی دن کے اخبار میں خبر تھی کہ سرگودھا میں ایک بیوہ خاتون نے اپنے جیسی بیوہ خواتین کے ساتھ مل کر ڈھابہ ہوٹل کھول لیا ہے اس پر کسی کا تبصرہ یا، شاباش نہیں آئی۔ نہ ہی کسی نے سوال اٹھایا، کہ ادھیڑ عمرکی یہ خواتین محنت کرنے پر کیوں مجبور ہیں، نہ ہی پچھلے دنوں ہونے والی ٹیکسٹائل صنعت کی مزدور خواتین ورکرز کے حق میں کسی نے کوئی آواز اٹھائی، سب اس نو عمر بچی کو گالیاں دیتے رہے جو ”میں آوارہ بد چلن“ کا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے، جب کہ اس کی شکایت یا طنز اتنا برا بھی نہیں کیونکہ اس نے یہی الفاظ اپنے ارگرد کے لوگوں سے خواتین کے بارے میں سنے اور لکھ ڈالے۔

ایک باشعور فرد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ایک عوامی تقریب میں وہ سب انسان جمع تھے جن کو مختلف شکایات تھیں اور وہ انہوں نے لکھ کر یا تقریر کر کے پیش کر دیں، اس میں ہم کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سوچنا یہ چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل اپنے معاشرے کے مردوں کے بارے میں اس قدر تحفظات کا شکار ہے، اس کے اندر اتنی بیزاریت کیوں آ رہی ہے، سارے باشعور لوگ یہ کہہ کر مضحکہ اڑا رہے ہیں، کہ ہم تو اپنی خواتین کا خیال رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رکھتے ہوں گے لیکن جن خواتین کے مرد ان کے ساتھ برا برتاؤ کر رہے ہیں ان کو تو اپنی بات کہنے دیجئے۔

ہمارے ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ابھی بھی ناخواندہ ہے، دیہی علاقوں میں ہے، وہاں کی خواتین کے بہت مسائل ہیں سوشل میڈیا ابلاغ کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے ذریعے دور دراز کے مقامات کے افراد کے ساتھ رابطہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی انسان سوشل میڈیا کے ذریعے سیکھ رہا ہے اپنے مسائل بیان کر رہا ہے تو ہمیں اس کو روکنے کا حق نہیں ہے اگر اپنے آپ کو اسلامی کہتے ہیں تو حق و مساوات کی بات کیجئے۔ ملک سے جاگیردارانہ وجرگہ نظام کی برائیوں کے خلاف کوشاں ہو جائیں۔ چھوٹے بچوں و بچیوں کے ریپ کے خلاف اجتجاج کیجئے نہ کہ ایک پوسٹر پر لمبی لمبی پوسٹس لکھنے کی ترغیب دینے لگیں۔

مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ خواتین کی مخالفت میں خواتین بھی آ گیئں۔ کچھ نے اپنے پسندیدہ احباب کی دیکھا دیکھی مخالف پوسٹس لگا دیں۔ جو خواتین باتیں بنا رہی ہیں ان کو گھر سے نکل کر واک میں حصہ لینا چاہیے تھا، اپنے بہتر مطالبات بھی پوسٹر پر لکھنے چاہیے تھے، جس نے شرکت کی اس کی ہمت نہ توریں، اپنی ذاتی سوچ اجاگر کیجئے میری سہیلیوں، کسی کی حمایت یا مخالفت میں اپنا یا دوسری خواتین کا استحصال نہ ہونے دیجئے، عورت پاکستان کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتی ہو۔

خواہ کسی گاؤں کی ہو یا کسی شہر کی امیر ہو یا غریب۔ وہ عورت ہے اس کے حق میں بات کیجئے، تضحیک میں نہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ معاشرے کے مرد گھر کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی کس طرح عورت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اسلام اسلام کرنے والے مرد خود کتنے اسلامی ہیں، یہ ہم کو اچھی طرح معلوم ہے۔ مانتے ہیں کہ کچھ اچھے بھی ہیں لیکن اچھوں نے بھی ایسے کوئی قوانین معاشرے میں رائج نہیں کیے نہ کروائے جو انسانی حقوق کے عین مطابق ہوں۔

تیس سال سے زائد عمر کی لڑکی کو عورت سمجھنے والے، شادی کے لئے چھوٹی عمر کی لڑکی چاہنے والوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوئیں، نہ ہی دوسری خواتین کو ہونے دیں۔ یہی مرد تیزاب کی کھلے عام خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگا سکے ہیں، اور بات کرتے ہیں اسلام کی۔ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام مضبوط ہے اس کو چند پوسٹر ہلا نہیں سکتے، لیکن یہ بھی دیکھئے کہ لڑکیاں ابھی بھی گھر سے فرار ہو رہی ہیں سب سے گھمبیر معاشرتی مسئلہ یہی ہے کہ گھر میں عورت کو تحفظ ملے، اس پر اسلامی تنظیموں کی خواتین اور این جی اوز کی خواتین کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک صاحب نے لکھا ”سپلائر خواتین کی واک“۔ بہت دکھ ہوا۔ کسی نے ان سے کہا نہیں کہ سپلائی کس کو کرتی ہیں فرشتوں کو کہ مردوں کو؟ ان کی پوسٹ پر ہاہاہا ہوتا رہا۔ ایسی بات کیوں لکھی گئی یہ سوال نہیں پوچھا گیا۔

اپنے ذہن سے سوچیئے اور سوچ وسیع کیجئے۔ قرتہ العین حیدر۔ مسرت جبین۔ عاصمہ جہانگیر۔ روتھ فاؤ۔ بلقیس ایدھی۔ کشور ناہید۔ فہمیدہ ریاض۔ نیلم احمد بشیر۔ یہ ہمارے معاشرے کی خواتین کی جرات کے استعارے ہیں، ان خواتین کے نقش قدم پر چلئے۔ ان خواتین کی اپنی الگ سوچ ہے، اسی لئے یہ معاشرے میں مقام رکھتی ہیں۔ گھر میں کام کرنے والی ماسی سمیت دوسری خواتین کی راہ کے کاٹنے چنیئے تا کہ آنے والی نسل محفوظ و مامون ہو۔ اس کو پوسٹر لے کر سڑک پر کھڑا نہ ہونا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).