جنرل غلام عمر اور ذوالفقار علی بھٹو جب ایک صفحے پر تھے


تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو زرداری کی بجائے بھٹو کا نام استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسد عمر نے اپنی تقریر میں کہا کہ بلاول کو اپنے زرداری ہونے پر کیوں شرمندگی ہے حالانکہ زرداری قبیلہ سندھ کا ایک غیور قبیلہ ہے۔ اس لیے وہ انہیں بلاول زرداری کہیں گے۔ اسد عمر کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ جنرل اسد عمر کی اولاد کو غیرت کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

اسد عمر جنرل غلام عمر کے بیٹے ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے اہم کرداروں شامل ہیں اور پاکستان کے ٹوٹنے میں اس وقت کی ملٹری جنتا کے گھناؤنے کردار پر انہیں بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ بلاول بے نظیر بھٹو کے فرزند اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں اور سیاست میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی کے چیئرمین ییں۔ فرزند جنرل اسد عمر اور وارث بھٹو بلاول ایک دوسرے پر برستے رہے اور ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے۔

اسد عمر کے والد جنرل غلام عمر اور بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی کیا ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح بر سر پیکار تھے؟ تاریخ اس کے برعکس بتاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل یحیٰی خان کی کابینہ کے فوجی وزراء سے گہرے مراسم تھے۔ جنرل ایس جی ایم پیرزادہ صدر یحییٰ خان کے پرنسپل اسٹاف افسر تھے۔ بھٹو اور پیرزادہ کے درمیان مضبوط تعلق قائم تھا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ایوب خان کے خلاف تھے۔

ایوب خان کی مخاصمت نے دونوں کو یکجا کر دیا تھا۔ ملٹری جتنا کے دوسرے اراکین میں جنرل گل حسن اور جنرل غلام عمر بھی شامل تھے  بھٹو صاحب بہت قریب ہو رہے تھے۔ ملٹری جنتا کے ایک اور اہم رکن جنرل حامد تھے۔ جنرل پیرزادہ اور جنرل غلام عمر اپنے آپ کو خارجی امور میں ماہر سمجتھے تھے حالانکہ دونوں ان شعبے میں کم درجے کی قابلیت کے حامل تھے۔ میجر جنرل غلام عمر نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری تھے۔

شیخ مجیب الرحمٰن سے جب یحیٰی حکومت کے مذاکرات ہو رہے تھے تو کچھ معاملات پر یحیٰی خان نے عوامی لیگ کے کچھ مطالبات کو ماننے کا عندیہ دیا تو ملٹری جتنا کے ارکان جن میں جنرل غلام عمر بھی شامل تھے وہ بھٹو صاحب کے موقف سے اتفاق کرتے تھے کہ یحیٰی خان بنگالیوں کو رام کرنے کے لیے قومی مفاد کو سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ جنوری 1971 میں یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان مذاکرات کے بعد جب اول الذکر شیخ مجیب سے خفا تھے کہ وہ عوامی لیگ کا تیار کردہ آئینی ڈرافٹ نہ دکھا کر ان کی تذلیل کر رہے ہیں تو اس کے بعد یحیٰی خان لاڑکانہ پہنچے جہاں وہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملے۔

بھٹو صاحب نے یحییٰ خان کی شیخ مجیب سے خفگی کا پورا فائدہ اٹھایا جس میں انہیں ملٹری جتنا کے اراکین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان میں جنرل پیرزادہ، جنرل حامد، جنرل گل حسن اور جنرل غلام عمر شامل تھے۔ بھٹو ان کی نظر میں اس وقت ملکی مفادات کا نگہبان تھا۔ جب فرزند جنرل غلام عمر اور وارث ذوالفقار علی بھٹو ایک دوسرے سے جوتم پیزار ہوئے تو سن اکہتر کے سانحے کے سیاسی اور فوجی کرداروں پر جمی ہوئی تاریخ کی دھول اڑی تو کچھ چہرے نظر آئے جن میں جنرل غلام عمر اور ذوالفقار علی بھٹو باہم شیر و شکر نظر آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).