معاشرتی تبدیلیاں اور مذہبی ہم آہنگی


دور حاضر کی تیزی سے بدلتی روایات اور ثقافتی تغیر نے بلاشبہ معاشرے میں ایک ہیجان بپا کر رکھا ہے۔ معاشرے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو اپنے آپ کو اس بدلتی صورت حال سے محفوظ تصور کرتا ہو۔ معاشرہ مغرب کا ہو یا مشرق کا سب ہی اس معاشرتی تغیر کا شکار ہیں۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ مغرب نے اس معاشرتی رفتار کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں جس کا فائدہ یہ ملا کہ انھوں نے مذہب اور معاشرت کو ایک کر کے اپنے لئے آسانیاں پیدا کر لی ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے اپنے مذاہب کو ایک مسلسل ارتقائی عمل کے سپرد کیے ہوئے ہیں۔

انسانیت کو سب سے مقدم مذہب کا درجہ دے کر مغرب آج ہر اس قدم کو اٹھا نے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا جوانھیں بہتر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں آج مذہب سے زیادہ معاشرت کے قوانین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور انسان کی بہتری اور فائدے کے لئے تجویز کردہ انسانی قوانین کی سختی سے عمل داری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مغربی معاشرے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ محسوس ہوتے ہیں۔ معاشرتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کے لئے ان کے معاشرے میں کوئی رعایت نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ اور اس کے افراد قول و فعل کے پکے اور دیانت دار کہلاتے ہیں۔

مگر کسی حد تک مشرق اور خصوصاً اسلامی معاشروں نے ابھی تک خود کو مکمل طور پر تبدیلیوں کے طوفانی دھاروں کے سپرد نہیں کیا۔ جس کی وجہ صرف اور صرف مذہبی مداخلت ہی ہے۔ مشرقی معاشرے میں ایک مذہبی جوش کاعنصر ہر شعبہ میں غالب نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ ایک عجیب سی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے کہ اگر ترقی کی خواہش میں وہ مغرب کی تقلید کریں تو مذہب آڑے آتا ہے اور اگر مذہب کی پیروی کریں تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ان کو تیسری دنیا کا درجہ ملتا ہے۔

اسی الجھن اور تناؤ کا شکار معاشرہ نہ تو معاشرتی تفاوت اور تغیرات کو جذب کر پاتا ہے نہ ہی قدیم مذہبی روایات کو جدید دور سے ہم آہنگ کر پاتا ہے۔ جس کا نتیجہ پسماندگی در پسماندگی ہی نکلتا ہے۔ مشرقی ترقی پذیر معاشروں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پسماندگی اور دقیانوسی میں حق بجانب ہیں کیونکہ ان کے مذاہب نے اتنی جانبدار رسومات اورروایات دے رکھی ہیں جن پر عمل کر کے مزید پسماندگی اور تقسیم ہی ملتی ہے جس کے نتیجے میں ان معاشروں کا پڑھا لکھا طبقہ مذہب سے بیزار ہی نظر آتا ہے اور وہ یا تو مذہب سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں یا معاشرے سے قطع تعلقی کر کے مغربی معاشروں کے رنگ میں رنگے اپنے ہی معاشرے کے لئے ایک عجوبہ بن جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ کچھ ایسا ہی حال دین برحق اسلام کے پیروکاروں کا بھی ہے۔ ایک مخصوص اور زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کایہ ماننا ہے کہ مذہب اور معاشرہ الگ الگ رکھ کر تو چلائے جا سکتے ہیں مگر ایک ساتھ دونوں پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان افراد کے لئے دیسی لبرل کی اصطلاح استعمال کروائی جا رہی ہے۔ جب کہ دوسری طرف مذہبی روایات کی سختی سے پاسداری کرنے والے وہ افراد جو معاشرتی بدلاؤ کو صرف گناہ اور بے راہ روی قرار دے کر اس سے کنارہ کرتے نظر آتے ہیں ان کے لئے پڑھی لکھی اور لبرل جماعتوں میں انتہا پسند اور بنیاد پرست جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔

زیادہ المناک صورتحال یہ ہے کہ یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دیگر مذاہب کے بارے میں پھر کبھی بات کریں گے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مکمل اور الہامی مذہب اسلام کے ساتھ اس قسم کی صورتحال کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو مذہب اسلام کو خود ہمارے لئے منتخب کیا اور اس کو ہر دور کا مذہب قرار دیا ہے پھر ہم معاشرے کی بدلتی ضروریات اور جدت پسندی سے کیوں ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے۔

بد قسمتی سے مسلمان جو کہ کسی دور میں دنیا کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے آج دنیا کی سب سے پسماندہ اور ترقی پذیر قوم کیوں بن کر رہ گئے ہیں؟ زمانے کی دوڑ میں قدم سے قدم ملانا تو دور کی بات ہے ہم ترقی یافتہ قوموں کی دھول تک بھی نہیں پہنچ پا رہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے والے آباء کے وارث کہلانے کا حق ہم گنوا بیٹھے ہیں۔ اس سلگتی بدحالی کا اشارہ علامہ اقبال اپنی شہرہ آفاق نظم جواب شکوہ میں تقریباً ایک سو سال پہلے ہی دے چکے ہیں مگر ہمیں شاید ابھی تک سمجھ ہی نہیں آرہی کہ

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

ہم اعتراف کرنے میں یقیناً ہچکچائیں گے مگر حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم کہلاتے تو مسلمان ہی ہیں مگر مسلمانوں والے نا انداز رہے نا اطوار۔

مذہب اور معاشرے کی کشمکش کی جنگ ہم ہار گئے ہیں کیونکہ نہ تو مغرب کی طرح مذہب کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہم معاشرے کی بدلتی روایات اور ترقی کو اپنا رہے ہیں۔

دراصل خرابی تب پیدا ہوئی جب ہم نے مغربی زیر اثر ہو کر مذہب اور معاشرے کو الگ الگ رکھنا شروع کر دیا۔ ہمیں یہ احساس ہی نہ رہا کہ مغرب کی تومجبوری تھی مذہب اور معاشرے کو الگ الگ کرنا کیونکہ ان کے مذاہب انسان کے بنائے ہوئے اصول اور عقاید پر مبنی تھے جن میں ظاہر ہے کہ زمانے کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے بدلاؤ ضروری تھا ورنہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے جس کے لئے مغرب نے مذہبی عقاید کو بھی زمانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ بدلنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ معاشرہ مذہب پر اتنا حاوی ہو گیا کہ اب مذہب سے زیادہ ان کو معاشرے کا خوف ہے۔ ان کے اچھے اور برے کا فیصلہ معاشرتی رویوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سب ایک سے اصول پر عمل کر کے اتفاق اور اجتماعیت کے جمہوری نظام کو لے کر کامیابی سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس کے برعکس ہم مذہب کو اپناتے تو ہیں مگر پورے کا پورا اپنانے کی بجائے جو آسان اور قابل عمل لگتا ہے اس کو اختیار کر لیتے ہیں اور جو مشکل لگتا ہے اس کو ترک کر دیتے ہیں۔ معاملہ چونکہ مذہبی عقاید کو اختیار اور ترک کرنے کا ہے اسی لئے اس عمل پر سب کا متفق ہونا نا ممکن ہے سو ہم مزید تفریق میں بٹ گئے اور جس کو جو اچھا لگا وہ اسی کو مذہب بنا کر اپنی مسجد الگ بسا بیٹھا۔ ستم در ستم معاشرے کی تحقیر اور مذاق سے بچنے کے لئے ہر ایک نے اپنے اپنے ادھورے اور اختیاری مذہب کوہولوکاسٹ نظریے کی طرح قابل تنقید تو ایک طرف، قابل گفتگو بھی نہیں ہونے دیا۔

آج ہم کسی کے فرقے پر بات بھی کرنے کی کوشش کریں تو اس فرقے کے عمایدین آپ پر مذہبی بے راہ روی اور کفر تک کا فتویٰ لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پڑھا لکھا اور دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ اس ادھوری مذہبی منطق اور غیر مناسب سختی کی وجہ سے مذہب اور مذہبی عمایدین سے بیزار ہوتا جارہا ہے۔ وہی ملا اور مولوی کا خطاب جو کسی دور میں عزت اور توقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا بد قسمتی سے آج طنزیہ طرز تخاطب میں استعمال کیا جاتا ہے۔

آج کے اس دور کی اولین ضرورت یہ ہے کہ مذہب اسلام کی اصل روح کو سمجھ کر اس کے نظام کو پورے کا پورا اپنایا جائے اور موجودہ مذہبی اور معاشرتی فاصلے کو ختم کر کے مذہبی معاشرہ متعارف کروایا جائے جس کی نظیر آج سے چودہ سو سال پہلے تو ملتی ہے مگر اس کے بعد سے مذہب اور معاشرہ الگ الگ قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جس معاشرے میں امیر شہراپنے شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کا خطیب نظر آتا تھا آج اسی معاشرے کے سٹی مئیر کا جامع مسجد سے کوئی تعلق نہیں اور جامع مسجد کے خطیب کو شہر کی سربراہی کی کوئی سوجھ بوجھ نہیں۔

مذہب اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور تا قیامت انسان کی راہنمائی کے لئے کافی ہے۔ ایک مکمل منظم اور جامع معاشرے کے لئے اسلام کا پورے کا پورا نافذ عمل ہونا اس وقت کی شدید ضرورت ہے ورنہ ادھوری مذہبی وابستگیاں اور پیروی صرف اور صرف گمراہی اور تباہی کا باعث ہی بنے گی۔ جدید دور کے تقاضوں اور نظریات کو اسلام کی چھتری کے سائے تلے یکجا کرنا ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے۔ نظام تعلیم کو مذہبی اورمعاشرتی ہم آہنگی دے کر آنے والی نسلوں کو اس الجھن سے نکالنا اشد ضروری ہے تاکہ وہ مذہبی اور معاشرتی جنگ سے آزاد ہو کر بہتر اور موثر زندگی گزار سکے نا کہ جدید نظام تعلیم اس کو مذہب سے دور کردے اور اس کے لئے کوئی برائی معاشرتی برائی تو ہو مگر گناہ کا علم نہ ہو۔

تعلیم کا مقصد نئی نسل کو مذہب سے قریب کرکے اللہ کا خوف اورفرمانبرداری کی طرف لانا ہو کیونکہ آج کی تیزی سے بڑھتی مذہبی بے راہ روی اس لحاظ سے خطرناک ترین ہے کہ نئی نسل کو گناہ کر کے بھی گناہ کا علم نہیں ہوتا۔ وقت اس سوچ کو اپنانے کا ہے کہ مذہب اور معاشرہ ایک ہی نظام کے دو پہلو ہیں اور دونوں ایک ہی وقت میں ایک جیسے طرز زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی تسلیم کر لیا جائے بہتر ہوگا کہ ناتو مذہب کو معاشرے سے جدا کیا جا سکتا ہے اور ناہی معاشرہ مذہب سے الگ رہ کر چل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).