سارہ شگفتہ – ایک ٹریجک شاعرہ


ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک شاعر دوست نے سارہ شگفتہ کی کتاب ’آنکھیں‘ تحفہ میں دی کتاب کو میں نے کئی با رپڑھا اور کئی بار سمجھنے کی کوشش کرتا رہا پھر اس پر گفتگو کا ایک دور چلا مگر کوئی بھی ڈھنگ سے اس ٹریجک اور منفردشاعرہ کوسمجھ نہیں پایا کہ سارہ کا کلام ہر بند میں آسمان کی طرف ایک نیا در وا کرتا چلاجاتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی دن محفلوں میں اس کا ذکر رہا اکثر لوگ اس شاعرہ کا ذکر سن کرگم سم ہو جاتے۔

سارہ :کا مختصر سا تعارف کچھ یوں ہے۔

سارہ شگفتہ 31 اکتوبر، 1954 ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ ان کی شاعری کی مرغوب صنف نثری نظم تھی جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع تھی غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھیں مگر میٹرک بھی پاس نہ کر سکیں۔ ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں (ان کے دو شوہر شاعر تھے ) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی، 4 جون، 1984 ء کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔

ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت پر امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘ اور انور سن رائے نے ’ذلتوں کے اسیر‘ کے نام سے کتابیں تحریر کیں اور پاکستان ٹیلی وژن نے ایک ڈراما سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھاگذ شتہ روز ایک دوست نے اس کے بارے میں استفسار سے پوچھا لہذا آئیے آپ کو بھی سارہ شگفتہ کی کہانی ان کی زبانی ہی سناتے ہیں۔

سارہ شگفتہ لکھتی ہیں :

ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔

اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔

ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔

قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔

باقی جھونپڑی پہنچتے پہنچتے، دو روپے، بچے۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔

شاعر نے کہا، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دیے۔ پھر کہا! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔

گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی۔

روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔

ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی۔

اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔

مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔

تھوڑی دیر کے بع لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔

ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا۔

پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں اور کفن کمانے چلا گیا۔

بس! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے۔ تم بستر پر رہو۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔

میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔

میں نے Sister سے کہا، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔

تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا۔ میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے۔ میں نے شاعر سے کہا، لڑکا پیدا ہوا تھا، مَر گیا ہے۔

اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔

کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی!

فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

راں بو کیا کہتا ہے؟

سعدی نے کیا کہا ہے؟

اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا۔

یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا!

جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا۔ میرے بچے کا جنم دیکھو!

چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔

میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے۔ اُس نے دے دیے۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا!

کیا تمہاری طبیعت خراب ہے؟

میں نے کہا، بس مجھے ذرا ا بخار ہے، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔

ہسپتال پہنچی۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔

آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔

بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔

میں پھر دوہری چیخ یک ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔

ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے، چل نکلی۔ گھر؟ گھر! گھر پہنچی۔

گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔

کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔

میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔ اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔ آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔

(سارہ شگفتہ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).